غزہ: سکاٹش وزیراعظم حمزہ یوسف کے سسر اور ساس جو ’اسرائیلی بمباری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘
،تصویر کا ذریعہYOUSAF FAMILY HANDOUT
سکاٹ لینڈ کے وزیر اعظم حمزہ یوسف نے غزہ میں پھنسے ہوئے اپنے ساس اور سسر کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان کے پاس پانی ختم ہو رہا ہے اور وہ اسرائیلی بمباری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
حماس کے اسرائیل کے اندر حملے کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری شروع ہوئی جس کے بعد سے حمزہ یوسف کے سسر اور ساس وہاں پھنس گئے ہیں۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیرِاعظم حمزہ یوسف نے بتایا کے ان کی ساس نے فون پر انھیں بتایا کہ جن حالات میں وہ رہ رہے ہیں وہ ’ٹارچر‘ کے مترادف ہے۔ جوڑے کا تعلق سکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی سے ہے۔
سکاٹ لینڈ کے وزیراعظم نے ایک سے زیادہ مرتبہ برطانوی حکومت سے ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے عام شہریوں کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کریں۔
برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا کہ وہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر رفح کراسنگ کھولنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ برطانوی شہریوں کو علاقے سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ رفح کراسنگ مصر کو غزہ کی پٹی سے ملاتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کے وزیراعظم حمزہ یوسف کی اہلیہ نادیہ کے والدین الزبتھ النخلہ اور ان کے شوہر ماجد ایک بیمار رشتہ دار کی عیادت کے لیے غزہ گئے تھے۔
حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے انگس کے سیلاب زدہ قصبے بریکن کا دورہ کر رہے تھے جب وہ اچانک اپنے مشیروں سے ایک فون کال وصول کرنے کے لیے علیحدہ ہوئے جس کے بعد انھوں نے بتایا کہ یہ غزہ میں پھنسی ان کی ساس کی کال تھی۔
حمزہ یوسف نے بی بی سی سکاٹ لینڈ کو بتایا کہ ’صورتحال تباہ کن ہے، یہ ہمارے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے، اور ان کے لیے اذیت ہے۔ وہ سو نہیں سکتے، اور یقیناً وہ پریشان ہیں کہ جس گھر میں وہ رہ رہے ہیں اس پر بمباری ہو سکتی ہے۔‘
حمزہ یوسف نے بتایا کہ ان کی ساس اور سسر کے پاس پینے کے پانی کی صرف چھ بوتلیں ہیں اور وہ ایک ایسے گھر میں رہتے ہیں جہاں کم از کم 100 لوگ پناہ لے رہے ہیں جن میں ایک دو ماہ کا بچہ بھی شامل ہے۔
،تصویر کا ذریعہPA MEDIA
حمزہ یوسف اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کے ساتھ
سکاٹ لینڈ کے وزیر اعظم نے برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ رفح کراسنگ کو کھولنے کا مطالبہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں غیر ملکی شہریوں اور دیگر بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں جن کا حماس سے کوئی تعلق نہیں ہے انھیں نکلنے کی اجازت دی جائے۔‘
گذشتہ سنیچر کو مصر سے 20 امدادی ٹرک دو ہفتوں میں پہلی بار غزہ میں داخل ہوئے تاہم امدادی کارکنوں نے اس سامان کو ’سمندر میں ایک قطرے‘ کے برابر قرار دیا۔
ان کے مطابق غزہ کے مکینوں کو اس سے کہیں زیادہ سامان ریلیف کے لیے درکار ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کے باعث پانی، بجلی اور ایندھن کی فراہمی مکمل طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
حمزہ یوسف نے کہا ’ہم امداد کا بہاؤ دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ضرورت سے کہیں کم ہے۔ لوگوں کو جانے کی اجازت دینے کے لیے سرحدیں کھول دینی چاہییں کیونکہ وہاں نہ صرف میری بیوی کے والدین بلکہ بہت سے معصوم مرد، عورتیں اور بچے تکلیف میں ہیں۔‘
گذشتہ جمعے کو حمزہ یوسف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے اکاؤنٹ پر اپنی ساس کی ایک ویڈیو کلپ پوسٹ کی جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ ’یہ میری آخری ویڈیو ہو گی۔ غزہ میں ہر کوئی یہاں آ رہا ہے جہاں ہم ہیں، دس لاکھ لوگ۔ کھانا نہیں ہے، پانی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہ نقل مکانی کے دوران ان پر بمباری کر رہے ہیں۔ ہم انھیں کہاں رکھیں گے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہسپتال میں موجود سارے لوگوں کو نہیں نکالا جا سکتا۔ کہاں ہے انسانیت؟ دنیا میں لوگوں کے دل کہاں ہیں کہ جو اس دور میں یہ ہونے دے رہے ہیں۔ خدا ہماری امداد کرے۔ خدا حافظ‘
خیال رہے کہ حماس کے حملے میں اسرائیل میں تقریباً 1400 افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے شروع ہوئے۔
اس کے بعد سے فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ کی پٹی میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ حالیہ کشیدگی سے پہلے ہی ایک انسانی بحران کا سامنا کر رہا تھا اور انھیں محاصرہ شدہ آبادی تک ضروری سامان پہنچانے کے لیے روزانہ تقریباً 500 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔
غزہ کی پٹی میں رہنے والی 22 لاکھ کی آبادی میں سے تقریباً 12 لاکھ افراد سات اکتوبر سے قبل اقوام متحدہ کی امدادی امداد پر انحصار کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے ہفتے کے روز کہا کہ اسرائیل جنگ کے اگلے مراحل میں اسرائیلی افواج کے لیے ’خطرات کو کم‘ کرنے کے لیے ’حملوں‘ میں اضافہ کرے گا۔
اتوار کے روز برطانیہ کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی حامیت میں مظاہرے ہوئے جن میں سکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر گلاسگو میں ایک مظاہرہ بھی شامل ہے۔
سکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم سربراہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف
،تصویر کا ذریعہPA MEDIA
حمزہ یوسف اپنے والدین کے ساتھ
مارچ 2023 میں سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کیا تھا۔
حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے سب سے کم عمر نوجوان اور پہلے مسلم سربراہ بنے۔ وہ برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان بھی ہیں۔
حمزہ یوسف کے والد کا تعلق پاکستان کے شہر میاں چنوں سے ہے، جو 1960 کی دہائی میں اپنے خاندان کے ساتھ سکاٹ لینڈ نقل مکانی کر گئے تھے جبکہ ان کی والدہ کینیا میں ایک جنوبی ایشیائی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔
حمزہ یوسف پہلی بار 2011 میں 26 سال کی عمر میں گلاسگو سے سکاٹش پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے۔ وہ سکاٹش کابینہ میں وزیر ٹرانسپورٹ ،وزیر انصاف اور وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں۔
Comments are closed.