چھ ماہ سے جاری غزہ جنگ میں اب تک کتنا نقصان ہوا ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سوہا ابراہیم
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، عربی
  • 6 اپريل 2024، 08:14 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 35 منٹ قبل

گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں ’فوری جنگ بندی اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی‘ کے لیے قرارداد کی منظوری کے باوجود غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ جبکہ دوسری جانب غزہ میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں بدستور اضافہ جاری ہے۔اس جنگ نے غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے جہاں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں اور رہائشی غزہ کے جنوب میں رفح کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ غزہ کی صورتحال کے باعث اب یہاں قحط پڑنے کا خطرہ شدید ہو گیا ہے۔غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے ایک غیر معمولی حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیل کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین حماس کو کالعدم دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ حماس نے اس حملے کے دوران 253 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا تھا اور اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 130 یرغمالیوں کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ غزہ میں ابھی تک قید ہیں جبکہ مختلف واقعات میں کم از کم 34 یرغمالی اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے اب تک تقریباً 600 اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 256 فوجی اکتوبر کے آخر میں غزہ میں زمینی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے۔انسانی امداد کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق جنگ کے 175ویں دن تک کم از کم 32623 افراد ہلاک اور 75092 سے زیادہ زخمی ہو چکے تھے۔حماس کے زیر انتظام غزہ کی پٹی کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے 178ویں دن تک کم از کم 32916 افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہوئے ہیں۔یکم مارچ کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں 9000 خواتین ہلاک ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی تک ملبے تلے بہت سے افراد دبے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 13000 سے زائد بچے مارے جا چکے ہیں۔اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن جیسے عالمی سیاست دان فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے فراہم کردہ نمبروں کی درستگی پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ یہ تعداد قابل اعتماد ہے۔

خوراک کا مسئلہ

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی جانب سے محصور بنائے گئے علاقوں کی 85 فیصد آبادی یعنی 23 لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ جبکہ ایسے علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی، خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی کمی صورتحال کو مزید گمبھیر بنا رہی ہے۔انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) ایک معتبر بین الاقوامی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کی حکومتوں، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کو کسی بھی علاقے میں بھوک اور فاقہ کشی کی صورتحال کے حوالے سے اعداد و شمار فراہم کرتا ہے۔ اس تنظیم کی گذشتہ ماہ کی رپورٹ میں غزہ میں قحط کے خطرے سے خبردار کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر فوڈ سکیورٹی اور ممکنہ قحط کی بات کی جائے تو’غزہ کی پٹی کی نصف آبادی (لگ بھگ 11 لاکھ سے زائد افراد) کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔‘اسرائیل اقوام متحدہ کی اس نوعیت کی رپورٹس کو ’غلط معلومات پر مبنی‘ قرار دیتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں غزہ میں آنے والی امداد کی صحیح انداز میں تقسیم میں ناکام رہی ہیں۔اسرائیلی وزارت دفاع کے سول افیئرز کوآرڈینیشن یونٹ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل میں حکام کی جانب سے کلیئرنس دیے جانے کے باوجود کریم شالوم کراسنگ پر سینکڑوں امدادی سامان سے لدے ٹرک کھڑے ہوتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع کا یہ یونٹ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں سویلین پالیسی کا انچارج اسرائیلی ادارہ ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اسرائیل غزہ میں شہری آبادی پر جنگ کے اثرات سے آگاہ ہے‘۔ یہ ادارہ ان الزامات کو بھی مسترد کرتا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر غزہ میں شہری آبادی کو بھوکا مار رہا ہے۔غزہ میں کراسنگز کو کھولنے اور علاقے میں امداد کی فراہمی کو تیز کرنے سے متعلق مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے قبل روزانہ کم از کم 500 امدادی سامان کے ٹرک آتے تھے جبکہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق گذشتہ ماہ یعنی مارچ کے مہینے میں روزانہ اوسطاً 161 ٹرک علاقے میں آ رہے تھے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں آنے والی انسانی امداد کی مقدار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

صحافیوں اور امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں

صحافیوں کی عالمی تنظیم، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک 99 فلسطینی صحافی اور میڈیا سے وابستہ افراد، چار اسرائیلی جبکہ تین لبنانی صحافی مارے گئے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی رپورٹ کے مطابق اس دورانیے میں غزہ میں جنگ کی کوریج کرنے والے 16 صحافی زخمی ہوئے، چار لاپتہ ہیں جبکہ 25 صحافیوں کو اسرائیلی حکام کی جانب سے حراست میں لینے کی بھی اطلاعات ہیں۔غزہ سے رپورٹنگ کرنے صحافی صرف اس صورت میں ہی غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں جب وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ ہوں اور کسی معاملے کو رپورٹ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی طرف سے عائد کردہ شرائط کی پابندی سے اتفاق کریں۔ ان شرائط میں غزہ کے دورے کے دوران صرف اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ رہنا اور ترتیب دی گئی خبروں کی اشاعت سے قبل اسرائیلی فوج سے منظوری حاصل کرنا شامل ہے۔امریکی امداد سے چلنے والے ’ایڈ ورکر سکیورٹی ڈیٹا بیس‘ کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 196 سے زیادہ امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر اقوام متحدہ سے منسلک امدادی اداروں کے کارکن ہیں۔

رفح میں زمینی کارروائی کی دھمکی

کئی ہفتوں سے اسرائیل غزہ کی پٹی کے جنوب میں مصر کی سرحد پر واقع رفح میں زمینی کارروائی شروع کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ یہ کراسنگ فی الوقت بند ہے۔ جنگ کے بعد اب یہ علاقہ 15 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہ بن چکا ہے۔ ان پناہ گزیوں میں سے اکثریت غزہ کی پٹی کے علاقوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے حکام نے رفح میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی زمینی کارروائی کی صورت میں بڑے انسانی المیے اور تباہی کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔اسرائیل میں وزیراعظم نتن یاہو پر غزہ میں قید درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانے اور ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔اکتوبر میں جنگ شروع ہونے کے بعد سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے میں حالیہ دنوں میں ہزاروں اسرائیلی وسطی یروشلم میں امڈ آئے۔ مظاہرین نے موجودہ اسرائیلی حکومت کے جنگ سے نمٹنے کی صلاحیت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور یرغمالیوں کے معاملے پر حکومت کی ناکامی پر شدید تنقید کی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}