غزہ جنگ کے خاتمے کے بارے میں اسرائیل کا مجوزہ منصوبہ: ’وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔۔۔ ہم یہ لمحہ نہیں کھو سکتے‘، بائیڈن
- مصنف, برنڈ ڈیبس مین جونیئر، ٹام بیٹ مین
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
- 2 گھنٹے قبل
امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔‘انھوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی نئی تجویز قبول کر لے۔نیا مجوزہ منصوبہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گی جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد میں ’اضافہ‘ کیا جائے گا اور فلسطینی قیدیوں اور کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بالآخر مستقل ’دشمنی کے خاتمے‘ اور غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کو مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے۔جمعے کو وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ’مکمل جنگ بندی‘، آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فورسز کا انخلا اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ شامل ہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ’حماس کہتا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ ان کے لیے یہ ثابت کرنے کا موقع ہے کہ وہ حقیقتاً یہی چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ بندی کے نتیجے میں محصور علاقوں تک پہنچنے والی امداد میں اضافہ ممکن ہو گا اور روزانہ کی بنیاد پر 600 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو پائیں گے۔مجوزہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد یہ جنگ بندی ’مستقل طور پر دشمنی کے خاتمے‘ کی بنیاد بنے گی۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے حماس کو یہ تجویز ماننے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ حماس کو ’اس معاہدے کو قبول کرنا چاہیے تاکہ ہم لڑائی کو روک سکیں۔‘لارڈ کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بہت عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر ہم سب صحیح اقدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں تو اس تنازع کو مستقل امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘’آئیے اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور اس تنازع کو ختم کریں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایکس پر جاری اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا ’غزہ میں بہت زیادہ مصائب اور تباہی دیکھ چکی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ختم ہو۔’میں (صدر) بائیڈن کے اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں اور تمام فریقین سے کہتا ہوں کہ وہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی اور بالآخر مشرق وسطیٰ میں ایک پائیدار امن کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘صدر بائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے درمیان کے مذاکرات آسان نہیں ہوں گے۔امریکی صدر کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی تجویز اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کا بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت جنگ کے خاتمے کے حق میں نہیں ہیں۔اس منصوبے میں بہت سی ایسی تفصیلات بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے ناکام ہو جانے والے مذاکرات میں بھی شامل تھیں۔ تاہم لگتا ایسا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مستقل جنگ بندی کے مطالبے کا مقصد حماس کو ان شرائط پر مذاکرات کی طرف واپس لانا ہے جن پر وہ پہلے ہی رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔ مستقل جنگ بندی حماس کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک ہے۔تجویز کے تیسرے مرحلے میں کسی بھی مقتول اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کی واپسی کے ساتھ ساتھ غزہ میں گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر نو کا ایک ’بڑا منصوبہ‘ شامل ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.