غزہ جنگ پر نتن یاہو کے خلاف مظاہرے جو ملک میں بڑھتی سیاسی تقسیم ظاہر کرتے ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشناسرائیل میں مظاہرہ

  • مصنف, جیرمی بوون
  • عہدہ, بی بی سی انٹرنیشنل ایڈیٹر، یروشلم سے
  • 20 منٹ قبل

اسرائیل کی گہری سیاسی خلیج دوبارہ عوامی طور پر سامنے نظر آنے لگی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے یہ تقسیم ایک طرف کر دی گئی تھی کیونکہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے چونکا دینے والے حملے کے بعد اسرائیل میں قومی سطح پر یکجہتی میں اضافہ نظر آیا تھا لیکن ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے کہ ہزاروں مظاہرین ایک بار پھر اسرائیل کی سڑکوں پر مظاہرہ کرتے نظر آنے لگے ہیں۔حماس کے خلاف جاری جنگ نے اسرائیل کے طویل ترین عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے ان کے عزم کو نئی توانائی بخشی ہے۔یروشلم میں پولیس نے مظاہرین کو سڑک سے ہٹانے کے لیے ان کے خلاف سکنک واٹر کا استعمال کیا ہے جو کہ ایک بدبودار مادہ ہوتا ہے اور اسے واٹر کینن سے فائر کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ مظاہرین نے شہر کی بڑی شمال-جنوبی شاہراہ بیگن بلیوارڈ کو بلاک کر رکھا ہے۔

مظاہرین وزیر اعظم نتن یاہو کے مستعفی ہونے اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ نئے نعرے بھی جڑ گئے ہیں جن میں غزہ میں ابھی تک قید 134 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے فوری معاہدے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ ان یرغمالیوں میں سے بہت سے لوگوں کے مارے جانے کا بھی خدشہ ہے۔ان یرغمالیوں کے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ ساتھ مظاہرین کو اس بات کا زیادہ خوف کہ جنگ جتنی دیر تک بغیر کسی معاہدے کے جاری رہے گی مزید بہت سے لوگ مارے جائیں گے۔،تصویر کا ذریعہOren Rosenfeld

،تصویر کا کیپشنکٹیا امورزا نے مظاہرے میں شرکت کی
اتوار کی شام جب ہزاروں افراد اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارد گرد کے وسیع راستوں پر بھرے ہوئے تھے تو کٹیا امورزا نے ایک لمحے کے لیے اپنا میگا فون زمین پر رکھ دیا۔ ان کا ایک بیٹا غزہ میں اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔انھوں نے کہا: ‘آج صبح آٹھ بجے سے میں یہاں ہوں۔ اور اب میں نتن یاہو سے کہہ رہی ہوں کہ میں انھیں خوشی خوشی ایک طرف کا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ دوں گی تاکہ وہ باہر جائیں اور پھر واپس نہ آئیں۔’اور میں ان سے یہ بھی کہہ رہی ہوں کہ وہ اپنے ساتھ ان تمام لوگوں کو لے کر چلے جائيں جنھیں انھوں نے اپنی حکومت میں ایک ایک کر کے منتخب کیا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کے سب سے برے، سب سے برے لوگ ہیں۔’اسی دوران ایک ربی (یہودی راہب) نے کٹیا اور ان کے میگا فون کے پاس سے سڑک عبور کیا۔ یہ ربی یہوداہ گلِک تھے اور وہ مسلمانوں کی تیسری سب سے مقدس عبادت گاہ مسجد اقصی جسے وہ ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں میں یہودیوں کی عبادت کے لیے مہم چلا رکھی ہے۔ربی گلِک نے کہا کہ مظاہرین یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا اصل دشمن حماس ہے نہ کہ وزیراعظم نتن یاہو۔انھوں نے کہا: ‘میرے خیال سے وہ بہت مقبول ہیں اور یہی بات لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔ میرے خیال سے یہ لوگ اس حقیقت کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ اتنے عرصے سے اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور وہ پھر بھی اب تک اقتدار میں ہیں۔’اور میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ مظاہرہ کریں، آئيں اور مظاہرہ کریں، بہ آواز بلند اپنی بات رکھیں، لیکن محتاط رہیں اور جمہوریت اور طوائف الملوکی کے درمیان انتہائی پتلی لکیر کو عبور نہ کریں۔’

،تصویر کا ذریعہOren Rosenfield

،تصویر کا کیپشنربی یہوداہ گلِک حماس کو بڑا دشمن مانتے ہیں
مظاہرین، اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے مسٹر نتن یاہو کے ناقدین کا خیال ہے کہ جمہوریت کے دشمن پہلے ہی ان کی حکومت میں موجود ہیں کیونکہ ان کی حکومت الٹرا نیشنلسٹ یہودی جماعتوں کی حمایت پر منحصر ہے۔ان میں مذہبی صیہونی پارٹی بھی ہے جس کی قیادت وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کر رہے ہیں۔ ان کے ایک رکن پارلیمان اوہد تال کا کہنا ہے کہ حماس پر مزید فوجی دباؤ کے علاوہ کسی بھی چیز پر یقین کرنا ’سادہ لوحی‘ ہے کہ وہ یرغمالیوں کو آزاد کریں گے۔انھوں نے کہا: ‘کیا آپ کو ایسا لگتا کہ حماس ایک معاہدے کے بعد یرغمالیوں کو اتنی آسانی سے واپس کر دیں گے اور کیا وہ پھر ہمیں ان تمام دہشت گردوں کو مارنے کی اجازت دیں گے جنھیں ہم اس معاہدے میں رہا کریں گے۔۔۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔’اگر کوئی ایسا بٹن ہوتا جسے آپ دبا کر تمام یرغمالیوں کو واپس لا سکتے اور سب کچھ ٹھیک کر سکتے تو ہر اسرائیلی اس بٹن کو دباتا۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں جتنا آپ سوچ رہے ہیں۔’مسٹر نتن یاہو یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ واحد شخص ہیں جو اپنے ملک کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور بہت سے اسرائیلیوں نے ان پر یقین کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ بغیر کسی رعایت کے اور امن معاہدے کے لیے ضروری قربانیاں دیے بغیر فلسطینیوں کا انتظام کر سکتے ہیں، یہودیوں کو اس مقبوضہ سرزمین پر آباد کر سکتے ہیں جسے وہ ایک ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔اور پھر گذشتہ سال سات اکتوبر کو یہ سب کچھ بدل گیا جب حماس نے سرحدی تار کو عبور کر کے حملہ کر دیا۔،تصویر کا ذریعہEPA-EFE-REX/Shutterstock
،تصویر کا کیپشنمظاہرین پر واٹر کینن سے حملہ کیا گيا ہے
بہت سے اسرائیلی اسے سکیورٹی کی خرابی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ سے حماس کو اسرائیل پر اس طرح کے تباہ کن حملے کی اجازت ملی۔اپنے سکیورٹی سربراہوں کے برعکس مسٹر نتن یاہو نے کبھی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔اور یہ بات ان ہزاروں لوگوں کو مشتعل کرتی ہے جنھوں نے اتوار کی شام یروشلم میں سڑکوں کو بلاک کر دیا۔اسرائیلیوں نے گذشتہ 40 سال سے بنیامین نتن یاہو کو اپنے ملک کی سیاست میں غالب شخصیت کے طور پر دیکھا ہے۔اقوام متحدہ میں اسرائیل کے فصیح ترجمان کے طور پر ابھرنے کے بعد اوسلو امن پراسیس کی مخالفت کرنے پر سنہ 1996 میں وہ کچھ عرصے لیے وزیر اعظم بنے جو کہ ان کا پہلا دور تھا۔مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے موجودہ امریکی منصوبے کی طرح اوسلو کے معاہدے بھی اس خیال کے گرد بنائے گئے تھے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان ایک آزاد ریاست کے قیام کی اجازت دینا ہی اس خطے میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان ایک صدی سے چلے آ رہے تنازع کے خاتمے کی واحد امید ہے۔مسٹر نتن یاہو فلسطینی ریاست کے مستقل مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ کو دوبارہ تیار کرنے کے لیے ایک ‘بڑے سودے’ کے حصے کے طور پر فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کی امریکی حکمت عملی کو حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا ہے۔ان کے اس رویے پر ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا صدر جو بائیڈن کے منصوبوں کو سختی سے مسترد کرنا اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کی مسلسل حمایت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔،تصویر کا ذریعہOren Rosenfeld
،تصویر کا کیپشناسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ڈیوڈ اگمون سنہ 1996 میں نتن یاہو کے پہلے چیف آف سٹاف تھے
اسرائیلی پارلیمان کنیسیٹ کے باہر موجود مظاہرین میں سے ایک اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ڈیوڈ اگمون بھی تھے۔ انھوں نے وزیر اعظم کا دفتر اس وقت چلایا جب مسٹر نتن یاہو پہلی بار منتخب ہوئے تھے۔انھوں نے کہا: ‘یہ 1948 کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا بحران ہے۔ میں آپ کو کچھ اور بتاؤں گا۔ میں 1996 میں نتن یاہو کا پہلا چیف آف سٹاف تھا، اس لیے میں انھیں جانتا ہوں، اور پھر تین ماہ کے بعد میں نے وہ عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ کون ہے۔ وہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔’وہ فیصلہ کرنا نہیں جانتا، وہ ڈرتا ہے، وہ صرف بات کرنا جانتا ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ وہ اپنی بیوی پر انحصار کرتا ہے، اور میں نے اس کے جھوٹ کو دیکھا ہے۔ اور تین ماہ کے بعد میں نے ان سے کہا کہ بی بی، آپ کو معاون کی ضرورت نہیں، آپ کو متبادل کی ضرورت ہے۔ اور میں نے عہدہ چھوڑ دیا۔’مظاہرین ابھی تک سڑکوں پر ہی ہیں لیکن مسٹر نتن یاہو نے قبل از وقت انتخابات کو مسترد کر دیا ہے اور رفح میں حماس کی افواج کے خلاف ایک نیا حملہ کرنے کے اپنے عزم کو دہرایا ہے۔سیاسی طور پر زندہ بچ جانے والے اور زبردست مہم چلانے والے کے طور پر ان کے ریکارڈ رہا ہے۔ اگر ان کے مخالفین کی قبل از وقت انتخابات کی خواہش پوری بھی ہو جاتی ہے تو بھی ان کے کم ہوتے ہوئے عقیدت مند پیروکاروں کے گروپ کو یقین ہے کہ وہ پھر سے جیت بھی سکتے ہیں۔اسرائیلی حماس کو تباہ کرنے کے بارے میں منقسم نہیں ہیں۔ حماس کے خلاف جنگی مقصد کو زبردست حمایت حاصل ہے۔لیکن جس طرح سے جنگ کو ابھی تک ہینڈل کیا گيا ہے، اور تمام یرغمالیوں کو بچانے یا آزاد کرنے میں ناکامی ہوئی ہے اس ایسا لگتا ہے کہ بنیامین نتن یاہو کا کریئر داو پر لگ رہا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}