غزہ جنگ: عالمی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور چھ ماہ کی طویل جنگ کے بعد کیا اسرائیل حماس کا نام و نشان مٹا سکا؟
- مصنف, میرلن تھامس اور جیک ہارٹن
- عہدہ, بی بی سی ویریفائی
- 2 گھنٹے قبل
گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے۔ انھوں نے قریب 1200 افراد کو قتل کیا اور سینکڑوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس بات کو اب چھ ماہ گزر چکے ہیں۔اس کے جواب میں اسرائیل نے حماس کا ’نام و نشان ختم کرنے‘ کا عزم ظاہر کیا تاکہ وہ اسرائیل کے لیے مزید خطرے کا باعث نہ بنے۔ اس نے اپنے عوام سے وعدہ کیا کہ تمام یرغمالیوں کو باحفاظت واپس لایا جائے گا۔اس کے بعد ہونے والی تباہ کن جنگ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق کم از کم 33 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے ہزاروں جنگجو ہلاک کیے ہیں اور اس غزہ کے زیرِ زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کیا ہے جس کے ذریعے حماس حملے کرتا تھا۔
بی بی سی ویریفائی نے اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کے پیغامات اور سوشل میڈیا پوسٹوں کا جائزہ لیا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اسرائیل اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters
حماس کے کتنے رہنما ہلاک کیے گئے؟
7 اکتوبر سے قبل خیال تھا کہ غزہ میں حماس کے قریب 30 ہزار جنگجو ہیں۔ آئی ڈی ایف کے کمانڈروں نے یہ اعداد و شمار فراہم کیے تھے۔حماس کی اعلیٰ قیادت جیسے اسماعیل ہنیہ، جنھیں گروہ کا مرکزی رہنما تصور کیا جاتا ہے، بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔ مگر خیال ہے کہ ان کی فوجی قیادت غزہ میں ہی رہتی ہے۔حالیہ بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس نے جنگ کے آغاز سے اب تک حماس کے قریب 13 ہزار جنگجو ہلاک کیے ہیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان اعداد و شمار تک کیسے پہنچا گیا۔اسرائیل نے حماس کے ان رہنماؤں کے نام بھی شائع کیے ہیں جو اس کے بقول مارے جا چکے ہیں۔اکتوبر سے اب تک اس فہرست میں 113 نام ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کی اکثریت جنگ کے پہلے تین ماہ میں ہلاک ہوئی۔ اسرائیلی فوج نے رواں سال صرف مارچ میں کسی سینیئر حماس رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
26 مارچ کو آئی ڈی ایف نے حماس کی ملٹری ونگ کے نائب کمانڈر مروان عیسیٰ کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ وہ اسرائیل کے سب سے مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک وہ حماس کے ہلاک ہونے والے سب سے سینیئر رہنما ہیں۔ امریکہ نے بھی اس ہلاکت کی تصدیق کی تاہم حماس کی طرف سے اس حوالے سے کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی۔آئی ڈی ایف کی جانب سے ہلاک ہونے والے حماس کے سینیئر رہنماؤں کی فہرست دی گئی ہے۔ تاہم یہ تصدیق کرنا ناممکن ہے کہ آیا وہ گروہ کے رکن بھی ہیں یا نہیں۔ان میں سے ایک نام مصطفیٰ ثریا کا ہے جو جنوبی غزہ میں فری لانس صحافی کے طور پر کام رہے تھے۔ جنوری کے دوران ان کی گاڑی پر حملہ ہوا تھا۔ہمارے جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس فہرست میں کچھ نام ایک سے زیادہ مرتبہ لکھے گئے ہیں۔جنوری کے دوران بیروت کے جنوبی علاقے میں حماس کے سیاسی رہنما صالح العاروری کی ہلاکت ایک دھماکے میں ہوئی۔ خیال ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل تھا۔تاہم ہم نے کچھ ماہرین سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کے بعض مقبول رہنماؤں اب بھی زندہ ہے، جیسے یحییٰ سنوار۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں اسرائیلی و فلسطینی امور کی تجزیہ کار میراف زونسزین کا کہنا ہے کہ آئی ڈی ایف (حماس کی اعلیٰ قیادت تک پہنچنے میں ناکام ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف علامتی سطح کی کارروائی بھی نہیں کر سکا اور نہ ہی علاقے میں حماس کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters
غزہ میں کتنے یرغمالی موجود ہیں؟
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کو 253 لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
- 109 یرغمالیوں کو قیدیوں کے تبادلے کے مختلف معاہدوں کے تحت رہا کیا گیا
- تین کو اسرائیلی فوج نے آپریشنز کے دوران ریسکیو کیا
- 12 یرغمالیوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ آئی ڈی ایف نے اپنے آپریشن کے دوران اپنے ہاتھوں تین یرغمالیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی
- سب سے کم عمر یرغمالی 18 سال کا ہے اور سب سے معمر فرد کی عمر 85 برس ہے
- بقیہ 129 یرغمالیوں میں سے اسرائیل کے مطابق کم از کم 34 کی ہلاکت ہوچکی ہے
حماس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ اس کے بقول ان کی اموات اسرائیلی فضائی کارروائیوں کے دوران ہوئیں۔ تاہم ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں۔حماس کے حملوں میں دو سب سے کم عمر یرغمالی ایریئل اور کفیر تھے جن کی اغوا کیے جانے کے وقت عمریں بالترتیب 4 برس اور نو ماہ تھیں۔ ان کی اموات کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم ان کی تصدیق نہیں ہوسکی۔،تصویر کا ذریعہReuters
حماس کی سرنگوں کے نیٹ ورک کو کتنا نقصان پہنچایا گیا؟
اسرائیل کے حماس کو ختم کرنے کے عزم میں اس کے غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنا بھی شامل تھا جس کے ذریعے اس کے جنگجو اور اشیا کی نقل مکانی کی جاتی ہے۔آئی ڈی ایف کے ترجمان جوناتھن کنریکس نے اکتوبر میں کہا تھا کہ ’غزہ کی پٹی میں ایک تہہ شہریوں کی ہے اور دوسری حماس کی۔ ہم حماس کی بنائی گئی اس دوسری تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔‘حماس نے پہلے کہا تھا کہ اس کا سرنگوں کا نیٹ ورک 500 کلو میٹر طویل ہے۔ تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکتی۔ہم نے آئی ڈی ایف سے پوچھا کہ اس نے کتنی سرنگیں اور مجموعی طور پر سرنگوں کے نیٹ ورک کو کس حد تک تباہ کیا ہے۔ اس کا جواب تھا کہ اسرائیلی فوج نے ’غزہ میں دہشتگردوں کے انفراسٹرکچر کو بڑی پیمانے پر تباہ کیا ہے۔‘آئی ڈی ایف نے بارہا اس کے شواہد دکھائے ہیں جب اس نے حماس کی سرنگوں کے خلاف آپریشن کیا۔ مثلاً آئی ڈی ایف نے نومبر میں ویڈیو جاری کی تھی جس میں غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے نیچے سرنگوں کو دکھایا گیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہ حماس کا کمانڈ سینٹر تھا۔یہ جاننے کے لیے کہ اسرائیلی فورسز نے مجموعی طور پر کس حد تک اس نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے، بی بی سی ویریفائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر آئی ڈی ایف کے پیغامات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ پیغامات 7 اکتوبر 2023 سے 26 مارچ 2024 تک غزہ میں سرنگوں کے حوالے سے تھے۔ان پیغامات میں 198 مرتبہ سرنگوں کی دریافت کا ذکر کیا گیا جن میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے سرنگوں کی نشاندہی کی ہے۔ مزید 141 پیغامات میں سرنگوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ان میں سے اکثر پیغامات میں مخصوص مقامات کے حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں۔ یعنی یہ دیکھنا ناممکن ہے کہ آئی ڈی ایف نے کس حد تک سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کیا ہے۔غزہ کے زیرِ زمین بھول بھلیاں میں کئی جزو ہیں۔ ان میں راستے، مختلف سائز کے کمرے اور سرنگ کو زمین کی سطح سے ملانے والے گڑھے ہیں۔36 پیغامات میں سرنگوں کے 400 داخلی راستے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ تاہم اسرائیل کی رچمن یونیورسٹی میں زیرِ زمین جنگوں کی ماہر ڈیفنی رچمنڈ بارک کا کہنا ہے کہ اسے پوری سرنگ سمجھنا گمراہ کن ہوگا۔وہ کہتی ہیں کہ ان راستوں کو تباہ کرنے کے باوجود سرنگ اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ’میرا نہیں خیال اس جنگ کے دوران ہم نے سرنگوں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیلی کارروائیوں کی بھاری قیمت
غزہ میں اسرائیل کے جنگ کے حوالے سے دعوؤں پر فلسطینیوں کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق 33 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت کے پانچ اپریل کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کا 70 فیصد حصہ خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔اس جنگ نے کئی شہریوں کو بے گھر کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے حماس کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی کوششوں کے دوران کئی معصوم لوگوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 17 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔غزہ کے رہائشی علاقے برباد ہوئے، گلیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، یونیورسٹیاں زمین بوس ہوئیں اور زرعی زمین بنجر ہوگئی۔سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ کی 56 فیصد عمارتیں منہدم یا تباہ ہوچکی ہے۔جنگ کے چھ ماہ بعد بھی یہ واضح نہیں کہ آیا اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر سکا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.