- مصنف, سٹیفنی ہیگارٹی اور احمد نور
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 2 گھنٹے قبل
بی بی سی کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں سے قبل وہاں کے مکینوں کو انخلا کے لیے جاری کی گئی وارننگز (انتباہی پیغامات) میں بے شمار غلطیاں کی گئی تھیں۔ان انتباہی پیغامات میں متضاد اور مبہم معلومات ہوتی تھیں اور بعض اوقات ضلعوں کے نام تک غلط تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی غلطیوں کو اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی گردانا جا سکتا ہے۔اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے ایسے کسی بھی دعوے کو مسترد کیا ہے۔ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ بی بی سی کی طرف سے تجزیہ کیے گئے انتباہی پیغامات شہریوں کو نقصان سے بچانے والی وسیع تر کوششوں کا ’محض ایک حصہ‘ ہیں۔
بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق (جب تک حالات اجازت دیں) حملہ آور قوتوں کو ایسے حملوں جن سے شہری آبادی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو، ان سے قبل موثر پیشگی انتباہ دینا ضروری ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے حماس کے خلاف جنگ کے دوران اس کا انتباہی نظام شہریوں کو خطرے سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ نظام غزہ کے نقشے کو سینکڑوں نمبروں والے بلاکس میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے غزہ کے لوگوں نے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔اسرائیل نے بلاکس کا ایک انٹرایکٹو آن لائن نقشہ تیار کیا ہے تاکہ غزہ کے باشندوں کو یہ معلوم کرنے میں مدد ملے کہ وہ کس بلاک میں ہیں، اور انخلا کی وارننگ جاری ہونے پر انھیں وہ علاقہ چھوڑ دینا چاہیے۔جنوری کے آخر میں آئی ڈی ایف کی جانب سے ایکس پر یہ پوسٹ دکھائی دی جس میں کیو آر کوڈ کے ذریعے ماسٹر بلاک میپ تک کا ایک لنک دیا گیا ہے۔لیکن جن لوگوں سے ہم نے بات کی انھوں نے ہمیں بتایا کہ انھیں آن لائن سسٹم تک رسائی حاصل کرنے میں نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اسے سمجھنے اور اس میں غلطیوں کی نشاندہی کرنا بھی مشکل تھا۔بی بی سی نے اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے سوشل میڈیا چینلز فیس بک، ایکس اور ٹیلی گرام کا تجزیہ کیا، جہاں ہمیں انتباہی پیغامات پر مشتمل سینکڑوں پوسٹس ملیں۔ جبکہ بعض اوقات معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ایک ہی وارننگ بار بار پوسٹ کی گئی تھی۔ اکثر یہ مسلسل پوسٹ کی گئی تھیں یا مختلف چینلز پر مختلف دنوں میں پوسٹ کی گئی تھیں۔
’بڑی دلیل‘
دسمبر میں غزہ شہر سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیک انٹرپرینیور صالح نے اپنے بچوں اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ وسطی غزہ کے علاقے نصیرات میں پناہ لے رکھی تھی۔ جہاں ان کے بقول بجلی یا فون سگنل نہیں تھے اور طویل عرصے تک انٹرنیٹ کی بندش بھی تھی۔جب ان پر بمباری ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو مرتے اور دیگر کو قریبی سکول سے بھاگتے ہوئے دیکھا مگر ان کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا سے متعلق کوئی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں تھیں۔بالآخر انھیں ایک شخص کے پاس سے ایک سم کارڈ ملا جو مصر اور اسرائیل کے سگنلز کے ذریعے ڈیٹا تک رسائی کو ممکن بناتا تھا اور وہاں انھیں اسرائیلی حکومت کے فیس بک پیج پر انخلا سے متعلق انتباہی پیغام ملا تھا۔صلاح کہتے ہیں کہ اس انتباہی پیغام میں ’غزہ کے کئی رہائشی بلاکس کے لیے انخلا کا حکم تھا، (لیکن) ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم کس بلاک میں رہتے ہیں۔‘اس نے ایک بحث کو جنم دیا۔صلاح صرف وقفے وقفے سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی اہلیہ امانی کو پیغام بھیجا جو جنگ سے عین قبل سے برطانیہ میں ہے۔ وہ آن لائن جا کر اسرائیلی فورسز کے ماسٹر بلاک میپ تک رسائی حاصل کرنے اور اس بات کی نشاندہی کرنے کے قابل تھیں کہ ان کے شوہر کس بلاک میں ہیں۔لیکن پھر فیس بک پر انخلا کی مخصوص وارننگ پر نظر ڈالتے ہوئے جوڑے کو معلوم ہوا کہ جس نمبر والے بلاک میں صلاح رہتے تھے، اسے دو حصوں میں تقسیم دکھایا گیا تھا۔ جس سے خاندان کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔بالآخر صلاح نے بچوں کے ساتھ غزہ سے جانے کا فیصلہ کیا لیکن ان کے خاندان میں سے کچھ اس وقت تک ٹھہرے رہے جب تک کہ لڑائی میں مزید شدت نہ آئی۔جب بی بی سی نے اسرائیلی فوج کی جانب سے فیس بک پر جاری کیے گئے انخلا کے انتباہی پیغام کا تجزیہ کیا جسے صلاح سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے تو ہمیں مزید مبہم نکات ملے۔اس انتباہی پیغام والی پوسٹ کے متن میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ بلاک نمبر 2220، 2221، 2222، 2223، 2224 اور 2225 کو چھوڑ دیں۔ یہ دراصل وہ تمام بلاکس تھے جو اسرائیلی فورسز کے آن لائن ماسٹر میپ میں نظر آتے ہیں۔لیکن اس پوسٹ کے ساتھ شیئر کیے گئے نقشے میں چھ نمبر والے بلاکس کو ایک دکھایا گیا تھا اور اس پر غلط بلاک نمبر 2220 درج تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.