اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے مطابق جنوبی غزہ میں رفح کراسنگ کے قریب ایک علاقے سے کرم شالوم کراسینگ پر 10 میزائل داغے گئے ہیں۔آئی ڈی ایف کا کہنا کہ یہ میزائل ایک شہری پناہ گاہ سے 350 میٹر کے فاصلے سے فائر کیے گئے تھے۔اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے جوابی کارروائی میں لانچر اور قریب ہی موجود ایک ملٹری سائٹ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل، حماس مذاکرات کا تازہ دور ختم
دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مصر میں جاری مذاکرات کا تازہ دور ختم ہو گیا ہے۔حماس کا کہنا ہے مذاکرات کا دور اتوار کو ختم ہوا اور اب اس کا وفد اب گروپ کی قیادت سے مشاورت کے لیے قطر جائے گا۔اطلاعات کے مطابق ثالثی کی کوششوں میں شامل سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز بھی مزید بات چیت کے لیے مصری دارالحکومت سے دوحہ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز میں یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے لڑائی میں 40 دن کا وقفہ اور اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کی اس نئی تجویز کو ’مثبت روشنی‘ میں دیکھتے ہیں تاہم اب بھی مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا جنگ بندی کا معاہدہ مستقل بنیادوں پر ہوگا یا عارضی۔گروپ اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ معاہدے میں جنگ کے خاتمے کے لیے حتمی فیصلہ کیا جائے تاہم اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حماس کے مطالبات اسرائیلی ریاست کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایسی صورتحال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں حماس کے جنگجو اپنے بنکروں سے باہر آئیں، دوبارہ غزہ کا کنٹرول حاصل کریں، اپنے فوجی ڈھانچے کی تعمیر نو کریں، اور جنوبی پہاڑوں کے اردگرد موجود بستیوں اور باقی اسرائیل کے شہریوں کو دھمکیاں دیں۔‘’یہ اسرائیل کے لیے ایک خوفناک شکست تصور کی جائے گی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل میں الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کی نشریات بند، دفتر پر پولیس کا چھاپہ
اسرائیلی حکومت نے الجزیرہ کو حماس کا ’ماؤتھ پیس‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ کابینہ کا متفقہ فیصلہ ہے جس نے نیوز نیٹ ورک کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔تاہم اسرائیلی اخبار ماریو نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ فیصلہ سرکاری کیمپ کے وزرا کی شرکت کے بغیر کیا گیا ہے۔اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کے الجزیرہ اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ قطری ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اسرائیل کے اس دعوے کو ’خطرناک اور مضحکہ خیز جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔الجزیرہ کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال پر ہر قسم کا قانونی قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ اتوار کو اسرائیلی پولیس نے یروشلم کے ایمبیسڈر ہوٹل میں موجود الجزیرہ کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے۔
- کیا نتن یاہو پر بڑھتی تنقید اور امریکی دباؤ، غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟11 اپريل 2024
- اقوام متحدہ: صحافی شیریں ابو عاقلہ کو عسکریت پسندوں نے نہیں بلکہ اسرائیلی فورسز نے قتل کیا24 جون 2022
- کولمبیا یونیورسٹی سے فلسطین کے حامی مظاہرین کی گرفتاری: امریکی جامعات میں احتجاج کرنے والے طلبہ کیا چاہتے ہیں؟1 مئ 2024
اسرائیل کے وزیر مواصلات شلومو کیرہی نے کہا ہے کہ پولیس نے الجزیرہ کے دفتر پر چھاپے کے دوران وہاں موجود ساز و سامان قبضے میں لے لیا ہے۔اسرائیلی وزیر کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس افسران اور وزارات کی جانب سے معائنہ کار ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو رہے ہیں۔بی بی سی کی یروشلم میں موجود ٹیم نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا لیکن انھیں اس صورتحال کی ریکارڈنگ کرنے نہیں دی گئی۔اس فیصلے کے بعد اسرائیل کے اندر الجزیرہ نیٹ ورک کی تمام سرگرمیوں بشمول ٹیلی ویژن نشریات کو روک دیا گیا ہے۔اسرائیلی حکومت ایک طویل عرصے سے الجزیرہ نیٹ ورک پر الزام عائد کرتی آئی ہے کہ وہ اپنی فنڈنگ کا ایک حصہ قطری حکومت سے حاصل کرتا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ملکی سیٹلائٹ سروسز پر یہ پیغام چلایا جا رہا ہے کہ حکومت کے فیصلے کے مطابق الجزیرہ سٹیشن کی براڈکاسٹنگ اسرائیل میں بند کی جا رہی ہے۔حکومت کی جانب سے یہ بندش مکمل طور پر پُراثر نہیں ہے کیونکہ چینل کو اسرائیل میں فیس بک پر اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہReutersاسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں الجزیرہ کے بیورو کے ڈائریکٹر ولید العمری نے چینل کو بند کرنے کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کو ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔انھوں نے روئٹرز کو دیے بیان میں تصدیق کی کہ الجزیرہ نیٹ ورک کی قانونی ٹیم نتن یاہو حکومت کے فیصلے کا جواب دینے کی تیاری کر رہی ہے۔اسرائیل میں ایسوسی ایشن فار سول رائٹس نے کہا کہ ملک کی سپریم کورٹ میں اس پابندی کے خاتمے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے۔اس پابندی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد تنقید کی آوازوں کو خاموش کروانا اور عرب میڈیا کو نشانہ بنانا ہے۔فارن پریس ایسوسی ایشن (ایف پی اے) نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں الجزیرہ کا بند ہونا ’آزاد پریس کے تمام حامیوں کے لیے تشویش کا باعث‘ ہونا چاہیے۔ایف پی اے نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل اب ’سٹیشن پر پابندی لگانے کے لیے آمرانہ حکومتوں کے ایک مشکوک کلب‘ میں شامل ہو گیا ہے۔ادارے نے خبردار کیا ہے کہ وزیر اعظم نتن یاہو کے پاس دوسرے غیر ملکی اداروں کو نشانہ بنانے کا اختیار ہے جنھیں وہ ’ریاست مخلاف‘ سمجھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بھی اسرائیلی حکومت سے پابندی واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔غزہ میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ الجزیرہ کا عملہ غزہ میں موجود چند رپورٹرز میں شامل ہے۔رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ اسرائیل خطے کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پریس اور نیوز کے شعبوں میں صحافیوں اور کارکنوں کو سب سے زیادہ قید کیا جاتا ہے۔تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 7 اکتوبر سے یکم مئی کے درمیان غزہ میں کم از کم 100 صحافی مارے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ ’ہمیں الجزیرہ کے دفتر کو بند کرنے کے اسرائیلی فیصلے پر افسوس ہے۔‘کمیشن نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ چینل کو بند کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آزادی اظہار ایک بنیادی انسانی حق ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ہے کہ ’شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے آزاد اور خود مختار میڈیا ضروری ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.