- مصنف, برنڈ ڈیبزمان جونیئر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
- 52 منٹ قبل
امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس، جو متوقع طور پر نومبر میں صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار بننے والی ہیں، نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے بات چیت کے بعد کہا ہے کہ انھوں نے واضح کیا کہ جنگ ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔کملا ہیرس نے نتن یاہو سے بات چیت کو ’مثبت‘ قرار دیا تاہم ان کا لہجہ موجودہ صدر جو بائیڈن سے کہیں سخت تھا۔کملا ہیرس کا کہنا تھا کہ انھوں نے غزہ میں ہلاکتوں پر سنجیدہ خدشات واضح کرتے ہوئے نتن یاہو کو بتایا کہ ’اسرائیل اپنا دفاع کیسے کرتا ہے یہ اہمیت کا حامل ہے۔‘یہ بات چیت وائٹ ہاؤس میں ہوئی جس کے بعد کملا ہیرس نے تنازع کا دو ریاستی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس ملاقات سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم نے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی جنھوں نے حال ہی میں صدارتی انتخابات سے دستبرداری اختیار کی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم، جنھیں اپنے ملک کے اندر اور بیرون ملک اس جنگ کو ختم کے لیے دباؤ کا سامنا ہے، نے ایک دن قبل ہی امریکی کانگریس کے سامنے خطاب میں ’حماس کے خلاف مکمل فتح‘ کا اعلان کیا تھا۔یہ معاملہ امریکی انتخابات میں اس لیے اہم ہے کیوں کہ جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد کو غصہ دلایا تھا۔ ان لوگوں کی حمایت کھونا ڈیموکریٹ پارٹی کو نومبر میں صدارتی انتخابات کے دوران مہنگا پڑ سکتا ہے۔اسی لیے اس وقت یہاں کافی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے کہ کملا ہیرس اگر صدر منتخب ہو گئیں تو وہ اسرائیل کی جانب کیا موقف اپنا سکتی ہیں۔کملا ہیرس نے نتن یاہو کے ساتھ 40 منٹ کی ملاقات کے بعد اسرائیل اور اس کے دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل یہ کام کیسے کرتا ہے، یہ بھی اہم ہے۔کملا ہیرس نے غزہ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ہم خود کو اجازت نہیں دے سکتے کہ لوگوں کی تکلیف کو محسوس نہ کریں اور میں خاموش نہیں رہوں گی۔‘،تصویر کا ذریعہVice President Kamala Harrisکملا نے کہا کہ ’ہمیں جلد سے جلد معاہدہ کرنا ہو گا تاکہ جنگ بندی کا معاہدہ حاصل کیا جا سکے۔ یرغمالیوں کو گھر واپس لائیں اور فلسطینی عوام کو مدد پہنچائیں جس کی ان کو اشد اور فوری ضرورت ہے۔‘دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جمعے کے دن ملاقات کریں گے جو ریپبلکن جماعت کے صدارتی امیدوار ہیں۔ وہ جو بائیڈن سے بھی ملاقات کر چکے ہیں تاہم امریکی انتخابات میں اچانک ہونے والی تبدیلی نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔نتن یاہو کا دورہ بائیڈن کی جانب سے دستبرداری کے فیصلے کی نظر ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل میں بھی ان کو تنقید کا سامنا ہے۔لی سیگل کے بھائی غزہ میں یرغمالیوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک نتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کر لیتے تب تک امریکہ جانے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آتا۔‘تاہم چند تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بائیڈن کی صدارت کو درپیش مشکلات کے درمیان ان کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا بھی آسان نہیں ہو گا۔دوسری جانب ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اب بائیڈن کے لیے ایسا کرنا پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان ہو جائے گا۔ ایہود باراک سابق اسرائیلی وزیر اعظم اور نتن یاہو کے ناقدین میں سے ایک ہیں۔
،تصویر کا ذریعہReutersوہ سمجھتے ہیں کہ ’اب بائیڈن زیادہ خودمختار ہو چکے ہیں کیوں کہ ان کو یہ فکر نہیں ہے کہ ان کے فیصلے کے ووٹرز پر کیا اثرات ہوں گے۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کے معاملے میں شاید اب وہ آزادی سے اور اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکیں۔‘حقیقت یہ ہے کہ بائیڈن کی جانب سے نتن یاہو کی حمایت نے امریکی سیاست کو تقسیم کر دیا کیوں کہ ایک جانب ری پبلکن اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسری جانب ڈیموکریٹ نتن یاہو پر تنقید کر رہے ہیں۔واشنگٹن میں ڈیموکریٹ سینیٹ سربراہ چک شمر نے اپنے ایک بیان سے ہلچل مچا دی جب انھوں نے کہا کہ ’نتن یاہو فلسطینیوں سے دیرپا امن قائم کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔‘یہ عین ممکن ہے کہ اب کملا ہیرس بھی ایسا ہی رویہ اپنا لیں تاہم امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی طرف خارجہ پالیسی تبدیل نہیں ہو گی جس میں اسرائیل کے دفاع کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔لیکن لہجے میں تبدیلی ضرور آ سکتی ہے۔مک ملروئے سابق امریکی نائب اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاع رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کملا ہیرس بائیڈن کی طرح اسرائیل سے جذباتی لگاؤ نہیں رکھتی ہیں۔ وہ ایک مختلف زمانے سے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نوجوان طبقے کے احساسات سے زیادہ قریب محسوس کرتی ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.