غزہ جنگ: اسرائیل اپنی زمینی کارروائی میں ’سرنگوں کی جنگ کی ماہر‘ حماس کے خلاف جنگی اہداف حاصل کرنے کے کتنا قریب ہے؟
غزہ جنگ: اسرائیل اپنی زمینی کارروائی میں ’سرنگوں کی جنگ کی ماہر‘ حماس کے خلاف جنگی اہداف حاصل کرنے کے کتنا قریب ہے؟
،تصویر کا ذریعہREUTERS
- مصنف, جوناتھن بیل
- عہدہ, دفاعی نامہ نگار، بی بی سی نیوز
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر زمینی کارروائی شروع کیے ہوئے تقریباً دو ہفتے ہوچکے ہیں اور غزہ پر شدید فضائی بمباری شروع کیے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک غزہ میں 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں 1400 اسرائیلیوں کی ہلاکت کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارووائی کا مقصد حماس کو عسکری اور سیاسی طور پر تباہ کرنا ہے۔
تاہم اسرائیل اس مقصد کو پورا کرنے کے کتنا قریب ہے اور کیا وہ اسے پورا کر بھی سکتا ہے؟
جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو ان کے مطابق ابھی یہ اس جنگ کے ابتدائی دن ہیں۔ انھوں نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ یہ آپریشن طویل المدتی اور مشکل ہو گا۔ اسرائیلی فوج کے جن اہلکاروں سے بی بی سی نے بات کی ہے انھوں نے اس کا موازنہ ایک باکسنگ میچ سے کیا ہے اور کہا ہے کہ ’یہ تو ابھی 15 راؤنڈز میں سے پہلا راؤنڈ ہے۔‘
اسرائیل میں کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی۔ کچھ لوگ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مغرب کی حمایت یافتہ عراقی فورسز کو 2017 میں عسکریت پسند تنظیم داعش سے موصل شہر واپس اپنے قبضے میں لینے کے لیے نو ماہ لگے تھے۔
یہاں اسرائیل کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ کئی مہینوں تک لڑائی جاری رکھے لیکن وقت فی الحال ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کیونکہ لڑائی میں وقفہ اور جنگ بندی کے مطالبے کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عسکری نقصانات
اسرائیل کے مطابق اب تک انھوں نے 14 ہزار حملے کیے ہیں جن میں انھوں نے درجنوں اہم اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس میں حماس کے کمانڈر شامل ہیں اور ہر حملے میں انھوں نے متعدد قسم کے ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
یروشلم پوسٹ اخبار کے سابق ایڈیٹر اور عسکری ماہر یاکوف کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی 23 ہزار سے زیادہ بم گرا چکا ہے۔
اس کے مقابلے میں جب عسکریت پسند تنظیم داعش کے خلاف موصل میں لڑائی اپنے عروج پر تھی تو ایک ہفتے میں مغربی اتحاد نے 500 بم گرائے تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کی ابتدا سے 10800 افراد غزہ میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 4400 بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے کامیابی سے شمالی اور جنوبی غزہ کو تقسیم کر لیا ہے اور اس کے فوجیوں نے غزہ شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ شہر کے ’مرکز‘ میں پہنچ گئے ہیں لیکن وہ ابھی اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے سے بہت دور ہیں۔
حماس اسرائیلی فوج کے ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج کا کوئی بڑی کامیابی ملی ہے۔
اسرائیل کی ابتدائی زمینی کارروائی بظاہر منصوبے کے عین مطابق آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور یہ امکان ہے کہ حماس کو اس کی کافی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہو گی۔
جنگ کی ابتدا میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ حماس کے پاس 30 سے 40 ہزار کے قریب جنگجو تھے۔
ایک سینیئر اسرائیلی عسکری ذرائع کہ مطابق اس میں سے 10 فیصد یعنی چار ہزار کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس قسم کے اندازوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی اور ان کے بارے میں محتاط رہنا ضروری ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی بمباری نے حماس کی لڑنے کی صلاحیت کو پہلے سے کم کر دیا ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس کے مقابلے میں اسرائیل کو بہت کم نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ زمینی کارووائی کے شروع ہونے کے بعد سے ان کے 34 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے ماہر یوسی کوپرواسر کا کہنا ہے کہ فوج بھاری جانی نقصان سے بچنے کے لیے اپنی زمینی کارروائیاں ’زیادہ احتیاط‘ سے کر رہی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حماس کے کتنے اہلکار شمال میں ابھی بھی موجود ہیں کتنے جنگجو سرنگوں میں ہیں اور کتنے عام شہریوں میں مل کر وہاں سے جنوب کی طرف نقل گئے ہیں۔
خیال رہے کہ ان کارروائیوں کے دوران 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔
عام سرنگیں اسرائیلی فوج کے لیے ایک بڑی مشکل تصور کی جاتی ہیں اور وہ زیر زمین لڑائی کرنے کے بجائے ملنے والی سرنگوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
شہری علاقوں میں جنگ کی مشکلات
فوجی صلاحیتوں اور انٹیلیجنس کے لحاظ سے اسرائیل کو نمایاں برتری حاصل ہے۔ یہ مواصلات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور غزہ میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کے نیٹ ورک کو بھی بند کر سکتا ہے۔
اسے جیٹ طیاروں اور ڈرونز کے ساتھ مکمل فضائی برتری حاصل ہے جو زمین پر ہر حرکت کو مانیٹر کرنے کے قابل ہیں لیکن زمین کی سطح کے نیچے سرنگوں میں ہونے والی آمدورفت کو مانیٹر نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کے ایک سینئر دفاعی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب بھی ہر روز 100 سے زیادہ نئے اہداف کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ یہ جنگ جتنی طویل ہو گی یہ فہرست چھوٹی ہوتے چلی جائے گی۔ تاہم یہ جنگ جتنی طویل چکے گی تو اس جنگ میں اسرائیل کو زمینی مزاحمت کچلنے کے لیے پیادہ فوجیوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔
ایک رسک انٹیلیجنس کمپنی سیبیل لائن چلانے والے سابق برطانوی فوجی افسران جسٹن کرمپ کا کہنا ہے گنجان آباد علاقے کے باوجود اسرائیل کو معقول پیش رفت حاصل ہو رہی ہیں لیکن ’اب انھیں زیادہ بھاری طریقے سے دفاع کیے جانے والے شہری علاقے کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
اسرائیلی فوجی اسلحے سے بہتر انداز میں لیس اور تربیت یافتہ ہیں لیکن شہری جنگیں اب بھی جدید ترین فوجیوں کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی ہیں۔
اب تک زمین پر قریب سے آمنے سامنے کی لڑائی محدود دکھائی دیتی ہے اور یقینی طور پر جس پیمانے پر شہری علاقے میں جنگ روس اور یوکرین کے درمیان باخموت جیسے شہروں میں ہو رہی ہے اس کے مقابلے میں یہ لڑائی کچھ بھی نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے شائع کی گئی زیادہ تر ویڈیوز میں نظر آ رہا ہے ک اسرائیل پیادہ فوجیوں سے زیادہ ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کا استعمال کر رہا ہے۔
اسرائیل نے اپنی تمام فوج غزہ میں نہیں بھیجی۔ کچھ اندازوں کے مطابق اب تک انھوں نے وہاں 30 ہزار فوجی تعینات کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج میں ایک لاکھ 60 ہزار حاضر سروس اہلکار ہیں جبکہ تین لاکھ 60 ہزار ریزرو میں ہیں یعنی اسرائیل نے اپنی کل تعداد کا نسبتاً کم حصہ استعمال کیا ہے۔
جسٹن کرمپ کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ اسرائیل ہر عمارت اور حماس کی سرنگوں کو کلیئر کرنے کے لیے کتنے پیادہ فوجیوں کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہے؟
اسرائیل اس کے بجائے حماس کے مضبوط ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ جسٹن کا خیال ہے کہ اسرائیل بلاک در بلاک لڑائی سے بچنے کی کوشش کرے گا، صرف اس لیے نہیں کہ اس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے یقینی طور پر 200 سے زیادہ یرغمالیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
حملے کے بعد کا منصوبہ
اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حماس کو تباہ کرنے کا اسرائیل کا مقصد حاصل ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اسرائیل کے سینیئر اہلکار بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ایک نظریے کو گولیوں اور بموں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
حماس کے کچھ رہنما غزہ میں موجود بھی نہیں ہیں۔ یاکوف کاٹز کا کہنا ہے کہ اگر حماس کے چند عناصر بھی جنگ میں بچ گئے تو وہ پھر بھی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ’کیونکہ ابھی بھی ہم زندہ ہیں، اس لیے ہم ہی اصل میں فاتح ہیں۔‘
اس وجہ سے جسٹن کرمپ کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کا مقصد حماس کو تباہ کرنے سے تبدیل ہو کر اسے سزا دینا بن سکتا ہے تاکہ سات اکتوبر جیسا حملہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔ اسرائیل پر کافی دباؤ ہے خصوصاً امریکہ کی طرف سے کہ وہ بتائیں کہ اس سب کے بعد کیا ہو گا۔
ایک اسرائیلی دفاعی اہلکار نے کہا کہ ونسٹن چرچل دوسری جنگ عظیم میں ڈی ڈے کے اتحادیوں کے حملے میں مدد کے وقت جرمنی کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے مارشل پلان کا نہیں سوچ رہے تھے۔
لیکن حملے کے بعد کی منصوبہ بندی کے بغیر جنگیں شاذ و نادر ہی جیتی جاتی ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جو اب تک کے اسرائیلی آپریشن میں مکمل طور پر غائب رہی ہے۔
Comments are closed.