- مصنف, یولینڈ نیل اور ڈیوڈ گریٹن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 35 منٹ قبل
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے چھ رکنی جنگی کابینہ کو تحلیل کر دیا ہے۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جو حزبِ اختلاف کے اہم رہنما بینی گینٹز اور ان کے اتحادی گادی آئزنکوٹ کے کابینہ چھوڑ جانے کے بعد متوقع تھا۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اب حماس کے ساتھ غزہ میں جاری جنگ کے متعلق حساس معاملات کے فیصلہ کم سطح کا ایک فورم کرے گا۔آٹھ دن قبل گینٹز نے جنگ کے لیے حکمت عملی کے فقدان پر استعفیٰ دیا تھا اور تب سے انتہائی دائیں بازو کے وزرا کی جانب سے ان کی جگہ لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔نتن یاہو کو اپنے ملک کے اندر حکومتی اور بین الاقوامی اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کابینہ کی تحلیل سے انھوں نے ایک مشکل صورتحال سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سے چین آف کمانڈ متاثر نہیں ہوگی۔گینٹز اور آئزنکوٹ نے اکتوبر میں جنگ شروع ہونے کے چند دن بعد نتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحاد کے ساتھ قومی اتحاد کے لیے بننے والی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔گینٹز اور آئزنکوٹ دونوں آئی ڈی ایف کے سابق چیفس آف سٹاف رہے ہیں۔ دونوں نے 9 جون کو اپنے استعفوں کا اعلان کیا تھا۔استعفے کا اعلان کرتے ہوئے گینٹز نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کی قیادت ہمیں حقیقی فتح تک پہنچنے سے روک رہی ہے۔اس کے فوراً بعد انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے کہا کہ انھوں نے نتن یاہو کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ انھیں جنگی کابینہ میں شامل کیا جائے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اتوار کی رات نتن یاہو نے مبینہ طور پر وزرا کو اطلاع دی کہ انھوں نے نئے ارکان کو شامل کرنے کے بجائے کابینہ تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یروشلم پوسٹ کے مطابق گینٹز کو جنگی کابینہ میں ان کی درخواست پر شامل کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ اتحاد کا معاہدہ تھا۔ ’گینٹز کے استعفے کے بعد اب کابینہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیلی اخبار ہیرٹز کی رپورٹ کے مطابق جنگی کابینہ کی زیر بحث آنے والے کچھ معاملات کو اب 14 رکنی سکیورٹی کابینہ میں بھیجا جائے گا جس میں گینٹز اور انتہائی دائیں بازو کے ساتھی وزیر خزانہ بیزال سموٹریچ شامل ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ حساس فیصلوں کو ایک ’چھوٹے مشاورتی فورم‘ میں حل کیا جائے گا۔ اس فورم میں وزیر دفاع گیلنٹ، سٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر اور الٹرا آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے چیئرمین آریہ ڈیری شامل ہوں گے۔یہ تینوں افراد گینٹز، آئزنکوٹ اور نتن یاہو کے ساتھ جنگی کابینہ میں شامل تھے۔آئی ڈی ایف کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے پیر کے روز اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے اقدامات سے ان کی کارروائیاں متاثر نہیں ہوں گی۔انھوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے ارکان اور طریقہ کار کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ’ہمارے پاس جو چین آف کمانڈ ہے، ہم اس کی ہی پیروی کر رہے ہیں۔ اسی چین آف کمانڈ کے مطابق کام کر رہے ہیں اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔‘یاد رہے اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے غیر معمولی حملے کے جواب میں غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کی مہم شروع کی تھی جس کے دوران تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی افواج کے حملوں میں اب تک غزہ میں 37340 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
- اسرائیلی فوج کا جنوبی غزہ میں فوجی کارروائی میں ’وقفے کا اعلان‘ حکومت میں تقسیم کا باعث کیوں بن گیا ہے؟17 جون 2024
- ’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں‘: چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں خفیہ اسرائیلی آپریشن کیسے مکمل ہوا11 جون 2024
- ’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں‘: چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں خفیہ اسرائیلی آپریشن کیسے مکمل ہوا11 جون 2024
گذشتہ چند روز کے دوران اسرائیل میں حکومتی اراکین کے مابین کشیدگی کے مزید اشارے ملے ہیں۔ نتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے وزرا نے آئی ڈی ایف کے ایک فیصلے پر بھی تنقید کی۔آئی ڈی ایف نے جنوبی غزہ کے شہر رفح کے قریب دن کے اوقات میں ’فوجی سرگرمیوں میں ٹیکٹیکل وقفہ‘ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ انسانی امداد کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کی اجازت دی جا سکےاس وقفےکا مقصد لاریوں کو رفح کے جنوب مشرق میں اسرائیل کے زیر کنٹرول کریم شالوم سرحدی کراسنگ سے امداد جمع کرنے اور پھر غزہ کے اندر مرکزی شمال جنوبی سڑک تک بحفاظت پہنچنے کی اجازت دینا ہے۔ گذشتہ ماہ رفح میں اسرائیل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے کراسنگ پوائنٹ پر امداد روک دی گئی ہے۔لیکن بین گویر نے اس پالیسی کو احمقانہ قرار دیا جبکہ اسرائیلی میڈیا نے نیتن یاہو کے حوالے سے نشر کیا: ’ہمارے ملک کے اندر ایک فوج ہے، فوج کے اندر ملک نہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesآئی ڈی ایف نے جواب میں کہا کہ وقفے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنوبی غزہ میں لڑائی رُک جائے گی۔ اس کے بعد زمینی صورتحال کو لے کر مزید الجھن نے جنم لیا۔فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے غزہ میں انسانی امداد کی سب سے بڑی تنظیم (انروا) کے مطابق پیر کے روز بھی رفح اور جنوب کے دیگر علاقوں میں لڑائی جاری ہے اور عملی طور پر ابھی تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی ’رفح کے علاقے میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انھوں نے ہتھیاروں کا سراغ لگایا، دھماکہ خیز مواد سے بھری عمارتوں کو نشانہ بنایا اور تل السلطان کے علاقے میں ’متعدد دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا۔غزہ میں مکمل جنگ بندی کی جانب پیش رفت کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ شاید اسی لیے اسرائیلی فوج کی جانب سے اب نئے انتباہ سامنے آ رہے ہیں۔ مثلاً ایک میں کہا گیا ہے کہ خطرہ ہے کہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ جنگ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔حالیے دنوں میں دونوں فریقین کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں شدت آئی ہے جس کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک اہم امریکی سفارت کار اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کے لیے خطے میں واپس آ رہے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.