غزہ: بمباری سے درجنوں مساجد اور چرچ منہدم، ’ان مساجد کو تباہ کیا گیا، جو ہمارے مذہب کے بارے میں بتاتی تھیں‘
ہم نے ان مقامات کی تباہی یا نقصان کو ظاہر کرنے والی آن لائن فوٹیج کی تحقیقات کی ہیں۔ اسی جگہ کے پچھلے مناظر کے ساتھ اس کا موازنہ کرنے کے بعد، نقصان کا پیمانہ نظر آیا۔دیگر مقامات کے لیے ہم نے سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کیا تاہم ان مقامات کے نقصان کی تصدیق کرنے کے لیے حدود ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر صرف جزوی نقصان کی بجائے عمارتوں کی مکمل تباہی کو ظاہر کرتی ہیں اور کچھ معاملات میں شواہد کی کمی نے ہمارے نتائج کو غیر حتمی بنا دیا۔حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 378 مساجد اور تین گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ تنظیم کے مطابق ’یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے مساجد کو بمباری اور تباہی کا نشانہ بنایا ہو لیکن یہ سب سے زیادہ پرتشدد ہے۔‘اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ حماس کے عسکریت پسند عبادت گاہوں کو پناہ گاہ اور حملے شروع کرنے کے لیے ٹھکانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’یہ خوفناک منظر تھا، میں نے کبھی کوئی لاش نہیں دیکھی تھی‘
خیال کیا جاتا ہے کہ سینٹ پورفیریئس دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک ہے، جو غزہ کی پٹی کے ارد گرد واقع مٹھی بھر گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔غزہ کی بہت قلیل عیسائی آبادی جن کی تعداد جنگ سے پہلے تقریبا 1،000 تھی، ان کا چرچ کے آس پاس کی زمین سے ایک مضبوط تعلق ہے۔ اس چرچ کا نام پانچویں صدی کے ایک بشپ کے نام پر رکھا گیا، جن کا مقبرہ اس کے نیچے ہے۔بہت سے فلسطینی عیسائیوں کی طرح ماریان صبا اور ان کے خاندان نے جنگ کے دوران چرچ میں پناہ لی، اس یقین کے ساتھ کہ وہ محفوظ ہوں گے لیکن 19 اکتوبر کو، جیسے ہی رات ہوئی ایک اسرائیلی میزائل نے چرچ کی عمارت کو نشانہ بنایا، جس میں 18 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ماریان نے بتایا کہ ان کے 34 سالہ بہنوئی سلیمان اس وقت مارے گئے جب انھوں نے اپنے بیٹے کو گرتی ہوئی دیوار سے بچانے کی کوشش کی۔ ’یہ ایک خوفناک منظر تھا، میں نے کبھی کوئی لاش نہیں دیکھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں، وہ فوراً ہی مارے گئے۔‘رامی ترازی دھماکے کے وقت چرچ کے ایک ہال میں موجود تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک راکٹ میزائل تھا جو اتنا بڑا تھا کہ دوسرے ہال میں موجود لوگ بھی سفید دھول میں اٹ گئے۔ ہم نے 16 لوگوں کو ٹکڑوں میں اور دو پوری لاشوں کو باہر نکالا‘۔ ہلاک ہونے والوں میں رامی کے 36 سالہ کزن سلیمان بھی شامل تھے، رامی کا کہنا تھا کہ وہ ایک گھنٹہ پہلے ان کے ساتھ باتیں کر رہے اور ہنس رہے تھے۔‘اسرائیلی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حماس کے فوجی کمانڈ سینٹر پر کیے گئے حملے میں گرجا گھر کے ایک حصے کو نقصان پہنچا۔ آئی ڈی ایف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’واضح طور پر کہتے ہیں کہ چرچ اس حملے کا ہدف نہیں تھا‘ اور یہ کہ اس واقعے کا ’جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق تنازعات کے دوران جان بوجھ کر مذہبی عمارات کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے تاہم اگر ایسی سائٹس کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو اس میں استثنیٰ ہے۔آئی ڈی ایف کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے والی ویڈیوز میں فوج کو ان مذہبی عمارتوں میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا، جنھیں انھوں نے نشانہ بنایا اور ان زیر زمین سرنگوں کو بھی دکھایا گیا، جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ حماس انھیں استعمال کر رہی ہے۔آن لائن شیئر کی جانے والی کچھ ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی فوجی مذہبی مقامات کے تقدس کی توہین کر رہے ہیں اور تباہی کی تعریف کر رہے ہیں۔ ایکس پر دیکھی جانے والی ایک تصویر میں ایک اسرائیلی فوجی کو ایک گرے ہوئے مینار کے سامنے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے، جس پر عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے ’عمارت (ٹیمپل) کو اچھی طرح سے تعمیر کیا جائے گا‘۔ بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ ’ویڈیو میں فوجیوں کی جانب سے دکھایا گیا رویہ سنگین اور آئی ڈی ایف کی اقدار کے مطابق نہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ واقعے کی جانچ کی جا رہی ہے اور انضباطی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کالج لندن کے انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی کی پروفیسر جارجیا اندریو غزہ کی پٹی میں ثقافتی ورثے کی تباہی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت سے مقدس مقامات کی ایک بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ ان کے بقول ’اسے ان مقامات کے ساتھ لوگوں کے تعلق کو ختم کرنے کی وسیع تر کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ اور مزید کہا کہ غزہ میں مقدس اور ثقافتی ورثے کے مقامات کی تباہی ’اب تک کی بدترین تباہی ہے جو میں نے دیکھی۔‘
’کاش آپ جانتے ہوتے کہ غزہ کی راتیں کتنی مشکل ہیں‘
غزہ میں بہت سی مساجد مسمار کر دی گئی ہیں اور گرجا گھروں میں پناہ لینے والوں کے برعکس فلسطینی مسلمان اپنی عبادت گاہ سے دور پناہ لینے کا انتخاب کر رہے ہیں۔خان یونس میں، ہم نے خلیل الرحمٰن مسجد کی تباہی کی تصدیق کی، جسے مبینہ طور پر علاقے میں ایک فضائی حملے میں نقصان پہنچا تھا۔ایک عقیدت مند مسلمان ہونے کے ناطے، ریناد علا البطا اکثر اس مسجد میں جاتی تھیں، جہاں انھوں نے قرآن حفظ کیا لیکن جب سے جنگ شروع ہوئی ہے وہ لوٹ کر وہاں نہیں گئیں۔ وہ کہتی ہیں ’اس سے پہلے آئی ڈی ایف افواج شاذ و نادر ہی مساجد کو نشانہ بناتی تھی جب تک کہ یہاں عسکریت پسندوں کے مبینہ اہداف نہ ہوں لیکن اس بار انھوں نے کئی خوبصورت مساجد کو تباہ کر دیا، جو ہمیں اپنے مذہب کے بارے میں بتاتی تھیں۔‘ نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران، موذن نے ایک عارضی مینار تیار کیا اور خلیل الرحمٰن مسجد کی باقیات پر ہی دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا شروع کر دی۔ریناد کہتی ہیں کہ اس سے انھیں تحفظ کا احساس ہوا جو اس وقت ختم ہوا جب اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی دوبارہ شروع کی۔خان یونس کی جانب سے سامنے آنے والی تباہی کی سب سے طاقتور تصاویر میں سے ایک ایسی ویڈیو ہے جس میں خالد بن الولید مسجد کو تیزی سے اور اچانک منہدم ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اسے ایکس پر تقریباً 15 ملین بار دیکھا جا چکا ہے۔ بی بی سی تجزیہ کار کرس پارٹریج کے مطابق اس ویڈیو میں ایک گائیڈڈ بم دکھایا گیا ہے، جسے ایک طیارے سے گرایا گیا، جو مسجد سے ٹکرانے کے بعد آگ اور دھوئیں کے بادل نظر آتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ گولہ بارود کا انتخاب اس کے ہدف کو درستگی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت پر ہے۔یہ واضح نہیں کہ ہم نے جن مذہبی مقامات کی تصدیق کی ہے ان میں سے کتنے آئی ڈی ایف نے تباہ کیے یا کتنے حماس کے زیر استعمال تھے تاہم آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ مسجد کی تباہی کے بارے میں آئی ڈی ایف نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی افواج نے ’مذکورہ مقام کو نشانہ بنایا، جسے حماس نے دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔‘ان کے مطابق ’حماس کے دانستہ حملوں کے بالکل برعکس آئی ڈی ایف بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور شہری نقصان کو کم کرنے کے لیے قابل عمل احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے۔‘غزہ کی بہت سی عبادت گاہوں کی تباہی کے درمیان، موت سے بھاگنے والے بہت سے فلسطینیوں کے لیے ایمان ہی تیزی سے روحانی جائے پناہ بن گیا ہے۔ماریان صبا اور ان کا خاندان تقریبا 300 دیگر افراد کے ساتھ ابھی بھی سینٹ پورفیریئس چرچ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔چرچ کو نقصان پہنچنے کے نو دن بعد، ان کی بیٹی کو بیپٹائز کیا گیا۔ وہ اسے ایک تلخ میٹھے لمحے کے طور پر بیان کرتی ہیں کیونکہ جو ایک خوشی کا موقع ہونا چاہیے تھا، اسے اس خوف سے بے چینی سے آگے بڑھایا گیا کہ کہیں ان کی بیٹی کو اس کے بغیر ہی نہ مار دیا جائے۔رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے ایک کیمپ میں، ریناد علا البطا خان یونس میں اپنے گھر اور مسجد سے بہت دور ہیں۔ انسٹاگرام اب ان کی ڈائری بن چکا ہے، جس میں اکثر پرانی یادیں چھائی رہتی ہیں، کیونکہ وہ اپنی پرانی زندگی کی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں، جس میں ان کا طالبہ کے طور پر گزرا وقت بھی شامل ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ قرآن، جسے وہ روزانہ پڑھتی ہیں، ان کے لیے اطمینان کی جگہ ہے ’اس سے رات کا بھاری پن کم ہو جاتا ہے۔ کاش آپ جانتے ہوتے کہ غزہ کی راتیں کتنی مشکل ہوتی ہیں۔‘اضافی رپورٹنگ: مہدی موسوی
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.