غزہ اسرائیل جنگ اور امریکہ میں مسلم مخالف رویے: ’بیٹی کو سمجھایا کہ کچھ لوگ نفرت سے بھرے ہیں‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
نیو انگلینڈ میں کالج کے تین طالب علموں پر فائرنگ اور متعدد دیگر واقعات کے بعد فلسطینی امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے بارے میں اب فکرمند رہنے لگے ہیں۔
جب سمیر البندک نے سُنا کہ ورمونٹ کے شہر برلنگٹن میں ’امریکن تھینکس گیونگ ویک اینڈ‘ پر تین فلسطینی نوجوانوں کو گولی مار دی گئی ہے تو وہ اپنی 16 سالہ بیٹی کے لیے خوفزدہ ہو گئے۔
فلوریڈا میں رہنے والی ان کی بیٹی مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار کے بارے میں آواز بلند کرتی ہیں۔ ان کے انسٹاگرام پیج پر فلسطینی پرچم نمایاں طور پر آویزاں ہے۔
ہشام آوارتانی، کنان عبدالحمید اور تحسین علی احمد نامی تین 20 سالہ فلسطینی نژاد امریکی طالب علموں کو گولی لگنے کے ایک ہفتے بعد البندک نے اپنی بیٹی کے ساتھ مشکل اور پیچیدہ گفتگو کرنے کے لیے فلوریڈا جانے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ انھیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں جو اندھے ہیں، جو نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔‘
برلنگٹن کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا 24 نومبر کو تین افراد کو گولی مارنا نفرت پر مبنی جرم تھا یا نہیں۔ ملزم جیسن ایٹن نے اقدام قتل کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
حملے کے متاثرین کا کہنا ہے کہ انھیں ان کی نسل اور قومیت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
حملے کے وقت وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانیں بول رہے تھے، ان میں سے دو نے کوفیہ پہن رکھا تھا جو ایک روایتی فلسطینی سکارف ہے جو اکثر فلسطینی شناخت اور یکجہتی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے انھیں خوفزدہ کر دیا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل اور غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکہ میں بظاہر فلسطینی ہونا ایک خطرہ کی علامت بن چُکا ہے۔
،تصویر کا ذریعہSAMER ELBANDAK
سمیر البندک نے سُنا کہ تین فلسطینی نوجوانوں کو گولی مار دی گئی ہے تو وہ اپنی 16 سالہ بیٹی کے لیے خوفزدہ ہو گئے
اس تشویش کو محسوس کرنے والوں میں این بورڈونارو بھی شامل ہیں، جو برلنگٹن میں پیدا اور پرورش پانے والے دو نوجوان فلسطینیوں کی والدہ ہیں۔
بورڈونارو کا کہنا تھا کہ ’میں نے ان تینوں نوجوانوں کی تصویر دیکھی تو میرے سامنے میرے بچوں کے چہرے آگئے، میں نے اپنے اندر شدید صدمہ اور درد محسوس کیا، مجھے لگا جیسے وہ میرے بچے تھے۔‘
اس کے بعد انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو فون کیا اور ’تکلیف دہ الفاظ کا تبادلہ ہوا‘، جس میں انھوں نے اپنے بچوں کو مشورہ دیا کہ وہ عوامی مقامات پر کوفیہ پہننے سے گریز کریں۔
بوردونارو کا کہنا تھا کہ ’میرا چھوٹا بیٹا اکثر اسے استعمال کرتا ہے، یہ صرف شناخت کی علامت ہے، یہ صرف اس بات کا اعلان ہے کہ وہ کون ہے۔‘
برلنگٹن میں فائرنگ کے واقعے کے وقت امریکہ میں فلسطینی برادری 14 اکتوبر کو الینوائے کے ایک چھ سالہ بچے واڈیا الفیوم کے قتل کے صدمہ کا شکار تھی۔
استغاثہ نے واڈیا کی موت کے ملزم پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے فلسطینی ہونے کی وجہ سے بچے اور اس کی ماں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) کا کہنا ہے کہ اسے 7 اکتوبر کے بعد سے عرب مخالف اور مسلم مخالف تعصب کی ’غیر معمولی‘ اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس میں دسمبر تک امریکہ بھر میں مدد کے لیے کل 2،171 درخواستیں درج کی گئیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی اہلیہ نے ایک طالب علم کو کوفیہ پہننے پر ہراساں کرنے کی ویڈیو میں اسے ’دہشت گرد سکارف‘ قرار دیا تھا۔
7 نومبر کو نیویارک کے شہر بروکلین میں اپنے بیٹے کے ساتھ کھیل کے میدان میں کوفیہ پہننے والے ایک شخص پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔
10 دن بعد ایک اور واقعے میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ایک یمنی نژاد امریکی مسلمان خاتون کو ایک شخص نے نیویارک کے سب وے پر نشانہ بنایا۔ انھیں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ فلسطینی پرچم کی بھی توہین کی۔
نیو جرسی میں کیئر کی شہری حقوق کی وکیل آیہ ذکی نے کہا کہ فلسطینی مائیں حال ہی میں اپنے بچوں سے اس مسئلے پر بات کرنے کے بارے میں مشورے کے لیے ان کے پاس آ رہی ہیں۔
ذکی کا کہنا تھا کہ ’گھروں میں ان بچوں کے درمیان خوف سے بھری بات چیت ہو رہی ہے جو اپنی شناخت کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں اور وہ مائیں اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ انھیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہABEER RAMADAN-SHINNAWI
عبیر امریکہ میں ہی پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں دوسروں کو قبول کرنے کی روایت عام نہیں‘
آیہ زکی کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو پیش آنے والا زیادہ تر نسلی تعصب دراصل عربوں اور مسلمانوں کے لیے امریکہ میں موجود ایک مخصوص تاثر ہے جو 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملوں کے بعد اپنے عروج پر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ جنگ کے بارے میں تقسیم کرنے والی سیاسی بحث بھی اس مسئلے کا حصہ ہے۔
عبیر رمضان شناوی امریکی ریاست میری لینڈ میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں۔ عبیر کہتی ہیں کہ انھیں امریکی معاشرے میں دوسری اقلیتی برادریوں کی طرح ایک مخصوص تعصب کا احساس ہوا۔
عبیر کہتی ہیں کہ ’یہاں دوسروں کو قبول کرنے کی روایت عام نہیں۔‘
تاہم اس خوف اور مایوسی کے درمیان ہمت کا جذبہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ روز قبل برلنگٹن میں ہونے والے واقعے کے بعد شہر میں دو دعائیہ تقاریب منعقد ہوئی تھیں جن میں ان تینوں فلسطینیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
ان میں سے ایک اس ہسپتال کے سامنے منعقد ہوئی جس میں یہ فلسطینی لڑکے اس وقت موجود تھے اور اس میں اکثر افراد نے کوفیہ بھی پہن رکھے تھے۔
برنارڈو کی طرح کچھ افراد اس گفتگو کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ان کی اپنے بچوں کے ساتھ ہوئی تھی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دوبارہ کوفیہ خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں بہت سال پہلے یہ پہنا کرتی تھی اور اب میں دوبارہ سے پہنا کروں گی۔‘
Comments are closed.