- مصنف, شیرین شریف
- عہدہ, بی بی سی، فیکٹ چیکنگ
- 2 گھنٹے قبل
گذشتہ اتوار روس کے مسلم اکثریتی علاقے داغستان میں ہونے والے متعدد حملوں کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے جن میں 15 پولیس افسران اور ایک آرتھوڈوکس پادری سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم 46 افراد زخمی ہوئے۔ان حملوں میں کم از کم پانچ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ان بظاہر مربوط حملوں میں ڈیربنٹ اور ماخچکالا کے شہروں میں دو گرجا گھروں اور دو یہودی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملے آرتھوڈوکس تہوار پینٹی کوسٹ کے موقع پر کیے گئے۔بی بی سی نے ان حملوں کا جائزہ لیا اور حملہ آوروں میں سے کچھ کی شناخت کی ہے۔
ہوا کیا تھا؟
ان حملوں میں ڈیربنٹ اور ماخچکالا کے شہروں میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ان حملوں کا آغاز قدیم یہودی برادری کے علاقے ڈربینٹ سے ہوا جہاں دو مسلح گروہوں نے بیک وقت (ماسکو کے مقامی وقت کے مطابق تقریباً شام کے پانچ بجے ) لینن سٹریٹ پر آرتھوڈوکس چرچ آف دی انٹرسیشن آف دی ورجن میری اور تاجی زادہ سٹریٹ پر ’کلی نوماز‘ نامی عبادت گاہوں پر آتشیں آلات پھینکے۔ویڈیوز میں ان عمارتوں پر آلات پھینکے جانے اور نتیجے میں ان عمارات کو آگ پکڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی نے وقت اور سائے کے تجزیے سے ان کی تصدیق کی ہے۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 1مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.ایک ویڈیو میں عبادت گاہ کے پچھلے دروازے پر کچھ نمبر نظر آ رہے ہیں جن کی تشریح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے چند قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کی ہے۔تاہم بی بی سی ان نمبروں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کی گئی تشریح کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ویڈیوز سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے سب سے پہلے عمارتوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائیں۔ڈربینٹ پر حملے کی ایک ویڈیو میں حملہ آوروں میں سے کچھ کے چہرے دکھائے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دو زخمی ہیں جبکہ بندوق برداروں نے پولیس سے ان کی کار چھینی ہے۔چرچ کے باہر ایک پولیس اہلکار اور پادری ہلاک ہو گئے۔ مقامی حکام کے مطابق پادری کی عمر 66 برس تھی اور وہ گذشتہ 40 سال سے زیادہ عرصے سے اس چرچ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔،تصویر کا ذریعہSocial Media
حملہ آوروں کی شناخت
وہ حملہ آوور جن کی شناخت کا اعلان حکام نے کیا اور جن کے چہرے ویڈیوز میں نظر آ رہے ہیں، بی بی سی نے چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے ذریعے ان میں سے کی شناخت کی ہے۔روسی حکام کا کہنا ہے کہ پانچ حملہ آور مارے گئے ہیں۔ ٹیلی گرام ایپ پر روسی چینلز نے کئی ایسی تصاویر دکھائی ہیں جن میں لوگوں کو زمین پر خون میں لت پت پڑے دیکھا جا سکتا ہے، ان چینلز کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ آوروں کے مارے جانے کے بعد کی تصاویر تھیں۔حکام کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے مجرموں کا سراغ لگا رہے ہیں تاہم انھوں نے اب تک حملہ آوروں کی کل تعداد نہیں بتائی۔مارے جانے والے حملہ آوروں میں عثمان اور عادل عمروف بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں شمالی داغستان کے ضلع سرگوکلنسکی کے سربراہ ماگومید عمروف کے بیٹے تھے۔ ان دونوں نے ماخچکالا میں ہونے والے حملے میں حصہ لیا تھا۔حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمروف سینئر کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ بتایا جا رہا ہے کہ یونائیٹڈ رشیا پارٹی (روس میں حکمران سیاسی جماعت) نے انھیں اس بنا پر اپنی پارٹی سے نکال دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے انتہا پسند نظریات سے واقف تھے مگر اس کے باوجود انھوں نے انٹیلیجنس کو اطلاع نہیں دی۔حکام کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے تحقیقات کے دوران اپنے بیٹوں کے انتہا پسند نظریات کا علم ہونے کا اعتراف کیا۔روسی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ عثمان عمروف کے ترکی میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ایک سیل سے بھی تعلقات تھے۔ وہ داغستان میں تعمیراتی کاروبار سے وابستہ تھے اور ازبرباش میں ایک کیفے کے مالک تھے۔بی بی سی عثمان عمروف کے متعلق ان معلومات کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
،تصویر کا ذریعہSocial Media
ان حملوں کا ذمہ دار کون ہے؟
ابھی تک کسی نے بھی ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن سوشل میڈیا پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے انھیں یقین ہو یا وہ یہ امید کر رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے دولتِ اسلامیہ کا ہی ہاتھ ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ تمام حملہ آوروں کی شناخت ظاہر ہونے تک کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔دولتِ اسلامیہ کے رہنماؤں نے ’غزہ پر حملوں کے بدلے‘ دنیا بھر میں دوسرے مذاہب کی اہم مذہبی عبادت گاہوں پر حملے کرنے کو کہا ہے تاکہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مذہبی جنگ کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔اس خطے کے سربراہ سرگئی میلیکوؤ نے ان حملوں کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یہ حملے یوکرین کی جنگ سے جڑے ہیں‘ لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
گذشتہ حملے
داغستان میں مسیحی اور یہودی عبادت گاہوں پر یہ پہلے حملے نہیں تھے۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک بندوق بردار نے کزلیار شہر میں چرچ جانے والوں پر فائرنگ کی تھی جس میں پانچ خواتین ہلاک ہو گئیں تھیں۔ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ’قفقاز ریجن‘ شاخ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔گذشتہ برس 29 اکتوبر کو مظاہرین نے اسرائیل سے آنے والے طیارے کی آمد کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر یہود مخالف مہم کے جواب میں ماخچکالا کے ہوائی اڈے پر دھاوا بول دیا تھا۔ ہوائی اڈے پر بنائی گئی ایک ویڈیو میں ہجوم کو فلسطینی پرچم لہراتے، دروازے توڑتے اور پولیس کی گاڑی کو الٹنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اس حملے میں متعدد پولیس اہلکاروں سمیت 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.