غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے آٹھ سالہ آدم کی ہلاکت اور اسرائیل پر ممکنہ جنگی جرم کے ارتکاب کا الزام
- مصنف, اسوبل یونگ، جوش بیکر اور سارہ اوبیدات
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 3 گھنٹے قبل
گذشتہ سال 29 نومبر کی سہ پہر کئی فلسطینی کمسن لڑکے مقبوضہ مغربی کنارے پر واقع اپنے گھروں سے کھیلنے کے لیے باہر گلی میں نکلے، یہاں وہ اکثر اکٹھے کھیلتے تھے۔چند ہی منٹ بعد ان میں سے دو کمسن لڑکے 15 سالہ باسل اور آٹھ سالہ آدم اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔مغربی کنارہ گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیل کے زیر قبضہ ہے۔ اس علاقے میں اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کے کارروائیوں اور طرز عمل کی تحقیقات پر بی بی سی نے ایک تحریر لکھی ہے اور یہ بھی پتا چلانے کی کوشش کہ ان دونوں کم عمر لڑکوں کے مارے جانے کے دن کیا ہوا تھا۔بی بی سی نے اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد کو منظر عام پر لانے کی غرض سے کم عمر لڑکوں کی ہلاکت کے واقعے کی موبائل فون اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اُس دن اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات، عینی شاہدین کے بیانات اور جائے وقوعہ کی تفصیلی تحقیقات کو یکجا کیا ہے۔
اس ضمن میں بی بی سی کو دستیاب شواہد کی بنیاد پر انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ساؤل یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ آدم کی موت ایک ’جنگی جرم‘ معلوم ہوتی ہے۔ ایک اور قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہل کاتھورن نے اس عمل کو طاقت کا ’اندھا دھند‘ استعمال قرار دیا ہے۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے اس معاملے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کم سن لڑکوں کی ہلاکتیں کن حالات میں ہوئیں اس کا ’جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’آتشی اسلحے کا استعمال دیگر تمام حربے کر لینے کے بعد صرف فوری خطرات کو دور کرنے یا گرفتاری کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔‘سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن میں فلسطینیوں کے گھروں کو توڑا یا گرایا گیا، فلسطینی شہریوں کو بندوق کی نوک پر دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر ہمسایہ ملک اُردن چلے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور ایک فلسطینی شخص کی ممکنہ مسخ شدہ لاش بھی ملی ہے۔29 نومبر کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کم عمر لڑکا باسل ایک ہارڈویئر سٹور کے پاس کھڑا ہے اور اس دکان کے شٹر مکمل طور پر بند ہیں۔ جب اسرائیل کی فوج آتی ہے تو مغربی کنارے کے شہر جنین میں دکانیں تیزی سے بند ہو جاتی ہیں۔ یہ فلسطینی علاقہ غزہ کی طرح حماس کے زیر انتظام نہیں ہے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ جنین پناہ گزین کیمپ میں قریب ہی اسرائیلی فوج کی طرف سے کیے آپریشن میں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔آٹھ سالہ آدم فٹ بال کا دیوانہ اور لیونل میسی کا بہت بڑا پرستار تھا اور اس دن اپنے بڑے بھائی 14 سالہ بہا کے ساتھ کھڑا تھا۔ گلی میں کل نو لڑکے تھے، سبھی کی ویڈیو سی سی ٹی وی کیمروں میں آئی جو کہ آگے کیا ہوا اس کا تقریباً 360 ڈگری منظر پیش کرتے ہیں۔چند سو میٹر کے فاصلے پر کم از کم چھ بکتر بند اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر مشتمل قافلے نے گلی کے کونے سے ان لڑکوں کی جانب رُخ کیا، جس کے بعد واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے بے چین ہو گئے اور کئی لڑکے وہاں سے ہٹنے لگے۔
- غزہ کی وہ تصویر جسے ’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ ملا: ’اس لمحے میں غزہ کے درد کی داستان موجود ہے‘19 اپريل 2024
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘25 اپريل 2024
- 12 سالہ فلسطینی بچی جس نے پورا خاندان کھو دیا: ’میں نے کمبل اٹھایا تو میرے ننھے بھائی کا سر کٹا ہوا تھا‘ 23 مار چ 2024
چونکہ مغربی کنارے کو جنگی زون قرار نہیں دیا گیا ہے، اس لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق طاقت کے استعمال کو زیادہ محدود ہو کر استعمال کرنا ہے۔جبکہ اسرائیلی فورسز شہریوں کے خلاف کارروائی کے قواعد کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔ سابقہ اور حاضر سروس اسرائیلی فوجیوں نے ہمیں بتایا کہ ’طاقت کا استعمال‘ اس وقت عمل میں لایا جاتا ہے جب آپ کی جان کو واقعے کوئی خطرہ ہو۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.