ریاض: سعودی عرب میں واقع کنگ عبدالعزیزیونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں جینیاتی ٹیکنالوجی سے سیاہ، سرخ اور کتھئی رنگ کے چاول بنائے گئے ہیں۔ لیکن یہ محض رنگین چاول نہیں بلکہ ان میں موجود غذائی اجزا کی وجہ سے ان کی رنگت بدل گئی ہے۔
کرسپرٹیکنالوجی سے تیار کردہ چاولوں میں خردغذائی اجزا موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاہ چاول انڈونیشیا کے کیمپوآئرنگ چاول کی طرح ہیں۔ لیکن اس تحقیق کا بنیادی مقصد چاولوں کی بدولت غذائی قلت کو ختم کرنا ہے کیونکہ ایک چاول میں تانبہ اور فولاد ہے تو دوسرے میں جست اور مینگنیز موجود ہے تو تیسری قسم میں سیلینیئم نامی اہم خرد جزو موجود ہے۔
مجدی محفوظ اور خالد صدیق نامی سائنسدانوں کی سربراہی میں بین الاقوامی ٹیم نے چاول میں حسبِ خواہش اجزا شامل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ چاول تیزی سے بڑھتے ہیں اور فصل تیزی سے تیار ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے دنیا بھر میں کاشت کئے جانے والے چاولوں کا مطالعہ کیا ہے۔
ماہرین نے تین سیاہ اور اور دو سرخ رنگت والے چاولوں کی ورائٹی لی ہے اور ان کے پورے جینوم (جینیاتی معلومات کا مجموعہ) کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کےعلاوہ چاولوں کی دیگر 46 اقسام پربھی غور کیا گیا تھا۔
پھر ان میں سے بہترین غذائیت والے چاولوں کا انتخاب کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر سیاہ چاول میں سب سے زیادہ غذائیت تھی جن میں کاربوہائیڈریٹس، امائنو ایسڈ، ثانوی میٹابولائٹس، لائپڈز، پیپٹائڈز اور طرح طرح کے وٹامن شامل تھے۔ پھر انہی سیاہ چاولوں میں تانبا، فولاد، مینگنیز اور سیلینیئم بھی پایا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانی جسم کو ان دھاتوں کی معمولی مقدار درکار ہوتی ہے تاہم ان کی کمی شدید امراض اور مسائل پیدا کرسکتی ہے۔
اگلے مرحلے میں یہ سائنسدان، سعودی عرب کے مشہورہساوی چاول کو جینیاتی ٹیکنالوجی سے بہتر بنائیں گے۔
Comments are closed.