- مصنف, مائیک وینڈلنگ اور گریس سوئی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
امریکہ کی ایک عدالت میں جلاوطن چینی بزنس مین گو وینگوئی پر فراڈ اور منی لانڈرنگ سمیت الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔وینگوئی ایک ایسی کاروباری شخصیت ہیں جنھوں نے پہلے چین میں ریئل اسٹیٹ کا ایک بڑا کاروبار کھڑا کیا اور پھر امریکہ میں اربوں ڈالر کا فراڈ کیا۔جون 2020 کے اوائل میں نیو یارک کے باسیوں نے اپنے سروں کے اوپر آسمان پر کئی چھوٹے جہاز دیکھے۔ ان جہازوں پر بینرز لہرا رہے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’چین کی نئی وفاقی ریاست کو مبارکباد۔‘ان جہازوں پر ایک آسمانی رنگ کا عجیب سا جھنڈا بھی آویزاں تھا۔ یہ کوئی مذاق تھا، شعبدے بازی تھی یا پروپگینڈا تھا؟
یہ معمہ کچھ دن بعد اس وقت حل ہوا جب وینگوئی وائٹ ہاؤس کے سابق چیف سٹریٹجسٹ سٹیفن بینن کے ہمراہ ایک آن لائن ویڈیو میں نمودار ہوئے۔یہ دونوں افراد مجسمہِ آزادی کے قریب ایک کشتی میں سوار تھے اور اس کشتی پر وہی آسمانی رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس ویڈیو میں ان دونوں افراد نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا۔وینگوئی نے اس ویڈیو میں کہا کہ ’ہمیں مارکس ازم، لینن ازم اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت پسند حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔‘یہ وینگوئی اور بینن کے درمیان تازہ ترین اشتراک تھا، ان دونوں ہی شخصیات نے چینی حکمرانوں کی مخالفت، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت، کورونا وائرس اور اس کی روک تھام کے لیے بنائی گئی ویکسین کے حوالے سے اپنے سازشی نظریات کا پرچار کرکے انٹرنیٹ پر اپنے پیروکاروں کے بڑے نیٹ ورک بنا لیے تھے۔ان دونوں شخصیات کی ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے چار برس بعد وینگوئی پر فراڈ اور منی لانڈرنگ سمیت 12 جرائم ثابت ہوئے۔،تصویر کا ذریعہVideo screengrab
منی ٹریل
استغاثہ کے مطابق وینگوئی نے اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کا استعمال کرکے اپنے حامیوں کے ساتھ فراڈ کیا۔چین سے باہر مقیم چینی حکومت کے ہزاروں مخالفین نے وینگوئی کو پیسے بھیجے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا پیسہ کاروبار اور کرپٹو کرنسی پر لگایا جا رہا ہے۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہزاروں چینی باشندوں کی جانب سے بھیجی گئی رقم کسی کاروبار میں بطور سرمایہ استعمال نہیں ہو رہی تھی بلکہ وینگوئی اور ان کے لندن میں مقیم بزنس پارٹنر کِن منگ جو اس رقم سے ایک پُرتعیش زندگی گزار رہے تھے۔ان دونوں نے مل کر اس پیسے سے نہ صرف مہنگے گھر، ایک بحری جہاز اور سپورٹس کاریں خریدیں بلکہ 10 لاکھ ڈالر کی ایک قالین اور ایک لاکھ 40 ڈالر کا ایک پیانو بھی خریدا۔بی بی سی نے متعدد لوگوں سے بات چیت کی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے چینی بزنس مین کے کاروبار میں ہزاروں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔امریکہ میں تقریباً ایک دہائی سے مقیم کوکو نامی ایک چینی پناہ گزین کہتی ہیں کہ ’میں ان کی لائیو سٹریمنگ ویڈیوز روزانہ دیکھا کرتی تھی۔‘ہم ان کا پورا نام نہیں تحریر کر رہے کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ وینگوئی کے دیگر پیروکار ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ان کی ویڈیوز بہت سنسنی خیز ہیں اور ہم نے ان پر مکمل بھروسہ کیا۔‘وینگوئی کے دیگر پیروکاروں کی طرح کوکو کی توجہ بھی ان کی طرف اس لیے گئی تھی کیونکہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے مخالف تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس سینیئر چینی حکام کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔وینگوئی اور وائٹ ہاؤس کے سابق چیف سٹریٹجسٹ بینن نے ساتھ مل کر ’جی ٹی وی‘ کے نام سے ایک میڈیا کمپنی قائم کی تھی۔ کوکو کو اس کاروبار پر شک اس وقت ہوا جب انھیں ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا اس وعدے کے ساتھ کہ انھیں وینگوئی تک رسائی دی جائے گی۔اسی واٹس ایپ گروپ کے ذریعے انھیں پیغام دیا گیا کہ تمام افراد کو وینگوئی کے ایک مخالف کے گھر کے باہر احتجاج کرنا ہے۔ کوکو کہتی ہیں کہ اس احتجاج میں شریک ہونے والے مظاہرین کو پیسے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ پیسے انھیں کبھی نہیں دیے گئے۔’ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ وہ کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔‘،تصویر کا ذریعہUS Justice Department
غربت سے امیری تک
وینگوئی کے ماضی کے قصے سُن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں غربت میں زندگی گزارنے کا تجربہ بھی تھا۔گذشتہ برس امریکی میگزین نیو یارکر میں شائع ہونے والی ایک پروفائل کے مطابق وینگوئی نے 1970 میں چین کے صوبے شانڈونگ کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور ان کے سات بہن بھائی تھے۔انھوں نے چینی جیل میں بھی وقت گزارا اور پھر وہاں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار چین کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔وہ خود کہتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے چین کے خفیہ اداروں میں تعلقات بنائے۔ بعد میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی دولت اور تعلقات کے سبب انھیں چینی حکام کے بارے میں اندر کی معلومات ملنے لگیں۔لیکن ان ہی تعلقات کے سبب بعد میں ان پر چینی حکومت کا ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی عائد ہوئے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’غداروں کو سزا دو‘
بینن کی مدد سے مواد بنانے کا فارمولا کامیاب رہا اور وینگوئی کے ہزاروں فالوورز نہ صرف انٹرنیٹ پر متحرک ہو گئے بلکہ سڑکوں پر بھی۔یہ معاملہ اپنی انتہا پر اس وقت پہنچا جب وینگوئی کے پیروکاروں نے ان کے مخالفین کے گھروں کا محاصرہ کرنا شروع کردیا۔وینگوئی کے مخالفین کی بڑی تعداد بھی چینی حکومت کے مخالفین پر مشتمل تھی، جو کسی سبب چینی بزنس مین کے مخالف ہو گئے تھے۔وینگوئی نے الزام عائد کیا کہ یہ مخالفین دراصل چینی حکومت کے جاسوس ہیں۔وینگوئی لوگوں کو تشدد پر اُکسانے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے ’غداروں کو سزا دو‘ کے نام سے ایک مہم شروع کر رکھی تھی۔اس تحریک میں جن لوگوں کو ہدف بنایا گیا انھیں مبینہ طور پر قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔ ایک شخص کو اس سبب مار بھی پڑی تھی۔یونیورسٹی آف شکاگو سے منسلک چینی پروفیسر ٹینگ بیاؤ کہتے ہیں کہ وہ بھی ان افراد میں شامل تھے جنھیں ’غداروں کو سزا دو‘ مہم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے 2017 میں وینگوئی کے خلاف لکھنا شروع کیا کہ چین کاروباری شخصیت چینی حکومت کے ناقدین کی آواز کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وینگوئی نے ٹینگ بیاؤ پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود بھی ٹینگ بیاؤ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ 2021 میں تقریباً دو ماہ تک 30 کے قریب افراد نیو جرسی میں ان کے گھر کے باہر جمع ہوتے تھے۔ٹینگ بیاؤ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بینرز تھامے میرے گھر کے باہر کھڑے رہتے تھے، مجھے کمیونسٹ پارٹی کا جاسوس قرار دیتے تھے اور میرے گھر کی ویڈیو لائیوسٹریم کرتے تھے۔‘’وینگوئی کے پیروکاروں نے مجھے قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔‘بعد میں وینگوئی کی ناقد بن جانے والی چینی پناہ گزین کوکو بھی کہتی ہیں کہ انھوں نے ماضی میں ایک ریلی میں حصہ لیا تھا جو چینی حکومت کے مخالف بوب فو کے گھر کے باہر نکالی گئی تھی۔بوب فو ایک مذہبی پیشوا اور مذہبی آزادی کے حامی کارکن ہیں، جنھوں نے 1990 کی دہائی میں چین کو خیرباد کہہ دیا تھا، وینگوئی نے ان پر چینی جاسوس ہونے کا الزام لگایا تھا۔کوکو کہتی ہیں کہ ’مجھے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے پر شدید افسوس ہے، یہ لوگ چینی جاسوس نہیں۔‘ماضی میں رضاکارانہ طور پر وینگوئی کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والی ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ چینی کاروباری شخصیت کی کمپنیاں ان لوگوں کی ذاتی تفصیلات جمع کرتی تھیں جو انھیں عطیات دیتے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وینگوئی کے پاس ان کی تمام ذاتی تفصیلات بشمول پاسپورٹ، شناختی کارڈ نمبر، ای میل ایڈریس اور فون نمبرز بھی موجود تھے۔‘وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اسی سبب بہت سارے چینی باشندے وینگوئی کے خلاف بولنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ کہیں ان کی ذاتی معلومات لیک نہ ہو جائیں۔
فراڈ کے الزامات
لیکن مارچ 2023 میں وینگوئی کا کاروبار اس وقت مشکلات کا شکار ہوگیا جب امریکی حکام نے ان پر اربوں ڈالر کے فراڈ کا الزام عائد کیا۔فردِ جرم عائد کرنے کے دوران جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق وینگوئی کی میڈیا کمپنی جی ٹی وی کے سبب کم از کم ساڑھے پانچ ہزار افراد کے 452 ملین ڈالر ڈوب گئے جبکہ وینگوئی کہتے ہیں کہ یہ کُل رقم دو ارب ڈالر تھی۔درحقیقت یہ ایک نیا کاروبار تھا، جس کے ذریعے کوئی منافع نہیں آ رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہUS Justice Department
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.