عوام کو بغاوت پر اُکسانے کے الزام میں11 ماہ قید کاٹنے والا رہنما، جس نے جیل سے رہائی کے فوراً بعد الیکشن جیت لیا
- مصنف, نتاشا بوٹی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 47 منٹ قبل
ایک سال قبل تک بہت کم لوگوں کو ان کا علم تھا اور اب وہ ملک کے صدر بننے جا رہے ہیں۔افریقہ کے مغربی ملک سینیگال کی سیاست میں بصیرو جومائی فائی کے غیر معمولی عروج نے کئی لوگوں کو حیران کیا ہے۔انھوں نے اپنے اتحادی اور کنگ میکر عثمان سونکو کے ساتھ کئی ماہ جیل میں گزارے مگر یہ قید اچانک ختم ہو گئی۔ دونوں کو صدارتی انتخاب سے ایک ہفتے قبل رہا کر دیا گیا۔’مسٹر کلین‘ کہلائے جانے والے فائی کو اب ان بڑی اصلاحات پر کام کرنا ہوگا جن کا انھوں نے وعدہ کیا ہے۔
سابق ٹیکس انسپکٹر فائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سخت قوائد کی پیروی کرتے ہیں اور بڑے عاجز ہیں۔ 25 مارچ کو ان کی عمر 44 سال ہوگئی ہے۔فائی کو آج بھی گاؤں میں اپنی پرورش یاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہر اتوار کو کھیتی باڑی کرنے جاتے ہیں۔ایک طرف جہاں انھیں دیہی زندگی سے محبت ہے تو دوسری طرف انھیں سینیگال کی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے نفرت ہے اور وہ اس معاملے میں کئی بار اپنا عدم اعتماد ظاہر کر چکے ہیں۔تجزیہ کار علیون ٹائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ کبھی وزیر نہیں رہے اور نہ ہی کبھی سٹیٹس مین کے طور پر کام کیا۔ اس لیے ناقدین انھیں ناتجربہ کار سمجھتے ہیں۔‘’لیکن فائی کا نظریہ ہے کہ 1960 سے ملک کو چلانے والے پرانے لوگوں کی تباہ کن ناکامیاں رہی ہیں۔‘فائی کے ایجنڈے پر اولین ترجیح غربت، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ ہے۔ ٹیکس کے محکمے میں کام کرنے کے دوران فائی اور سونکو نے بدعنوانی کے خلاف یونین بنایا۔فائی کہتے ہیں کہ سینیگال کے عوام کی بہتری کے لیے گیس، تیل، فشنگ اور دفاعی معاہدوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔انھوں نے اپنے ووٹروں کو بتایا کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ فرانس کے ساتھ ان کے تعلق کی حد تک یہ بات ان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔سینیگال کے نومنتخب صدر کہتے ہیں کہ وہ افریقی ممالک میں استعمال ہونے والی کرنسی سی ایف اے فرانک کو ترک کر دیں گے۔ اس کرنسی پر کئی مبصرین تنقید کرتے آئے ہیں۔ اسے یورو کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس اس کی حمایت کرتا ہے۔فائی اس کی جگہ سینیگال یا علاقائی مغربی افریقی ممالک کے لیے نئی کرنسی لانا چاہتے ہیں مگر یہ آسان نہیں ہوگا۔فائی سے قبل صدر میکی سال کے نیچے کام کرنے والی سابق وزیر اعظم امیناتا تورے کہتی ہیں کہ ’انھیں سب سے پہلے تو بجٹ کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔ لیکن میں دیکھ سکتی ہوں کہ ان میں بڑا جذبہ ہے۔‘فائی کی ترجیحات میں آزاد عدلیہ اور نوجوانوں کے لیے نئی نوکریاں پیدا کرنا ہے۔ تورے کہتی ہیں کہ ’صدر سال نے اس پر کافی توجہ دی تھی۔‘تورے واحد بڑی سیاستدان نہیں جنھوں نے 44 سالہ نو منتخب صدر کی حمایت کا اعلان کیا۔ اتوار کو ووٹنگ کے بعد سابق صدر عبداللہ وادہ نے بھی ایسا ہی کیا۔فائی کی تقدیر غیر معمولی انداز میں پلٹی ہے۔ انھوں نے عوام کو بغاوت پر اُکسانے کے الزام میں گذشتہ 11 ماہ جیل میں گزارے۔ اس سے قبل وہ کئی برسوں تک اپنے اتحادی کے سائے میں رہے۔،تصویر کا ذریعہAFP
جیل سے رہائی کے فوراً بعد الیکشن
فروری میں اعلان کیا گیا کہ بصیرو جومائی فائی نام نہاد ’پلان بی‘ امیدوار ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن کے سخت گیر رہنما عثمان سونکو کی جگہ لی۔ سانکو کہتے ہیں کہ ’میں یہ بھی کہوں گا کہ اُن میں میرے سے زیادہ دیانتداری ہے۔‘فائی اور سانکو نے مل کر پستف پارٹی کی بنیاد رکھی جو اب توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔ دونوں ہی ٹیکس کولیکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور دونوں کو مبینہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر جیل بھیجا گیا تھا۔سانکو پر دو الزام عائد ہوئے جس کا مطلب تھا کہ وہ انتخاب میں نااہل قرار ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے فائی کو امیدوار بنایا گیا۔پستف کے رہنما مصطفیٰ سارے اس سے متفق ہیں: ’وہ ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔‘اس بنیاد پر یہ تنقید کی گئی کہ فائی اتفاقاً صدر بنے ہیں تاہم تجزیہ کار ٹائن اس بات سے متفق نہیں۔ دونوں کی شراکت ایک نئی طرز کی قیادت کو جنم دے سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’شاید وہ ایک نیا نظام بنائیں تاکہ سب سے بااختیار ریاستی سربراہ کے صدارتی ماڈل سے نکلا جاسکے۔‘’سانکو پستف کے بلامقابلہ رہنما ہیں لیکن دونوں میں مزاحمت اور مفاہمت کا میلاپ ہے۔‘ایک وہ دور بھی تھا جب فائی کبھی سیاست میں جانا نہیں چاہتے تھے۔ 2019 کے دوران انھوں نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا تھا۔‘فائی کے ہیروز میں سینیگال کے تاریخ دان شیخ انتا دیوپ ہیں جنھیں دائیں بازو کے افریقی قوم پرست سکالرز میں شمار کیا جاتا ہے۔فائی کی فتح پر ملک کے دارالحکومت ڈاکار میں لوگوں نے اونچی آواز میں موسیقی لگا کر اور گاڑیوں کے ہارن بجا کر جشن منایا۔سینیگال کے ڈالر بانڈ گذشتہ پانچ ماہ کی کم ترین سطح پر جا پہنچے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ فائی کے صدر بننے سے ملک کی کاروبار دوست پالیسیاں ختم نہ ہوجائیں۔فائی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’سینیگال کے عوام نے مجھے منتخب کر کے پرانے نظام سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ میں شفافیت اور عاجزی سے حکومت چلاؤں گا۔‘یہ الیکشن درحقیقت گذشتہ ماہ ہونا تھا مگر سال نے انتخابی مہم کے آغاز سے کچھ گھنٹے قبل اسے موخر کر دیا۔ اس سے اپوزیشن کی جانب سے مظاہرے کیے گئے اور جمہوری بحران پیدا ہوا۔نئی تاریخ آنے کے بعد اکثر امیدواروں کے پاس تیاری کے لیے بہت کم وقت بچا تھا۔ فائی کے پاس جیل سے نکلنے کے بعد صرف ایک ہفتے کا وقت تھا۔بین الاقوامی امور کے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ سے وابستہ کرسٹوفر فومنیو نے بی بی سی نیوز ڈے کو بتایا کہ قلیل انتخابی مہم کے باوجود سینیگال کے شہری باہر نکل کر اپنے ووٹ کو استعمال کرنے کے لیے ڈٹ گئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’سینیگال ایک مثال ہے کہ جمہوریتیں خود کو تصحیح کرسکتی ہیں اور مزید مضبوط ہوسکتی ہیں۔‘مگر سچ تو یہ ہے کہ سینیگال کے ’مسٹر کلین‘ کا کام ابھی شروع ہوا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.