بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عوامی مخالفت کے باوجود بحرین اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری کیوں آ رہی ہے؟

بحرین، اسرائیل تعلقات میں وہ گرم جوشی جو کچھ عرصہ قبل ناقابل تصور تھی

  • ٹام بیٹمین
  • بی بی سی نیوز، مانامہ

نفتالی بینیٹ کا بحرین کا دورہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اور بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد

اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ بحرین کی وزارت داخلہ کے بینڈ نے پہلے کبھی اسرائیل کے قومی ترانے کی دُھن بجائی ہو، لیکن انھیں سُن کر ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے پریکٹس کر کر کے اس پر کمال حد تک دسترس حاصل کر رکھی تھی۔

اسرائیل کا یہ قومی ترانہ بحرین کے حکمران الخلیفہ خاندان کے محل ’القدیبیہ‘ کے احاطے میں ایک اعزازی گارڈ آف آنر کے دوران بجایا گيا۔ پھر میں نے یہ دیکھا کہ سورج کی روشنی میں اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اور بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔

یہ ایک ایسا منظر تھا جس کا چند سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور اسی طرح اس بات کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایئرپورٹ کی فلڈ لائٹس میں ایک اسرائیلی رہنما اور خلیجی ممالک کا شاہی خاندان سرخ قالین پر ایک دوسرے سے گھل مل رہے ہوں۔

لیکن پہلے سے ہی یہ معاملہ قدرے کم قابل ذکر محسوس ہونے لگا تھا۔ اور اب یہ معمول کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا بحرین کا یہ دورہ گذشتہ دو مہینوں میں کسی خلیجی ملک کا دوسرا دورہ ہے۔ وہ دسمبر میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) گئے تھے۔ او اے ای اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

’ابراہم ایکارڈ‘ یعنی حضرت ابراہیم کے نام پر ہونے والے معاہدے کی ابتدا ہوئے اب ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں اور اب اس میں چار عرب ممالک شامل ہیں۔

ان معاہدوں کی ثالثی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی اور سنہ 2020 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ مسٹر بینیٹ اپنے پیشرو کے سائے سے نکلنے کے خواہشمند ہیں اور وہ اپنے کام کو ’تقریب سے اصلیت کی طرف‘ منتقل کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ابراہم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پیر کو بین گوریون ہوائی اڈے پر طیاروں کی روانگی کے بورڈ پر دو پروازیں دبئی اور ایک ابوظہبی کے لیے نظر آ رہی تھیں۔ ہماری بحرین والی پرواز میں ہوائی اڈے کی سکیورٹی، وزیر اعظم کی سکیورٹی اور ڈھائی گھنٹے کی پرواز پر مشتمل تھی جسے مانامہ (بحرین کا دارالحکومت) میں اُترنے سے قبل سعودی عرب کے اوپر سے پرواز کرنا تھا۔

بحرین کا دارالحکومت فلک بوس عمارتوں، ہوٹلوں، مالز اور مالیاتی خدمات کے اداروں کا ایک متاثر کن مجموعہ ہے۔ 20 ویں صدی میں اس ملک کی آمدن کا ذریعہ موتیوں کی تجارت سے نکل کر پیٹرول کی تجارت پر منحصر ہو گيا تھا۔ لیکن اب یہ معیشت کا صرف پانچواں حصہ ہے، اور اپنے پڑوسیوں کی طرح بحرین بھی زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر تنوع پیدا کر رہا ہے۔

مسٹر بینیٹ نے ملک کے وزیر خزانہ، خارجہ امور اور ٹرانسپورٹ کے وزرا سے ملاقات کی اور بادشاہ اور ولی عہد سے بات چیت کی۔ ان کے عہدیداروں نے کہا کہ ان کا مشن ’امن، استحکام اور خوشحالی‘ کے لیے ہے۔

تجارت اور سیاحت کو فروغ دینے کی خواہش واقعتاً چیلنجنگ ہے، بطور خاص کووڈ کی وبا کے بعد آنے والی سست روی کے تناظر میں۔ اسرائیل اور بحرین کے درمیان ابراہم ایکارڈ کے تناظر میں تعلقات میں پیش رفت متحدہ عرب امارات یا مراکش کے مقابلے میں بہت سست رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فوجی تعاون کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن شاذ و نادر ہی اس کی تفصیلات پر بات کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ علاقائی بحالی کے لیے سب سے بڑا نکتہ ہے۔

اسرائیل اور خلیجی عرب ریاستیں ایران کے خلاف بڑھتی ہوئی باہمی دوستی کی جانب اشارہ دے رہی ہیں یا جیسا کہ مسٹر بینیٹ اسے ’مشترکہ خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے طاقتور حریف یعنی ایران، سعودی عرب اور اسرائیل اپنی پراکسیز اور بعض صورتوں میں براہ راست ملوث ہونے والے تنازعات کی لپیٹ میں ہیں۔

مسٹر بینیٹ نے کہا کہ وہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ’رنگ آف الائنس‘ یعنی اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن یہ ایک نازک قسم کی دوستی ہے۔ بحرین کی سُنی مسلم بادشاہت شیعہ اکثریتی آبادی پر حکومت کرتی ہے، جن میں سے اکثر اسرائیل کے ساتھ نئے تعلقات کی مخالفت کرتے ہیں۔ پیر کی رات مانامہ کے باہر حکومت مخالف چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے۔ یہ دورہ اسی دن ہوا جب وہاں سنہ 2011 کی بغاوت کے آغاز کی 11ویں برسی منائی جا رہی تھے جسے زبردستی دبایا گیا تھا۔

نفتالی بینیٹ کا بحرین کا دورہ

،تصویر کا ذریعہEPA

ملک میں اہم حزب اختلاف کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کے محققین کے مطابق اس میں ایک اور موڑ ہے جو نارملائزیشن کے راہ میں حائل ہے کیونکہ سنہ 2020 میں نو بحرینی کارکنوں کے موبائل فون کو اسرائیلی فرم این ایس او گروپ کے تیار کرد سپائی ویئر پیگیسس کا استعمال کرتے ہوئے ہیک کیا گیا تھا۔

بحرین کی حکومت نے گذشتہ سال ان دعوؤں کو ’بے بنیاد اور گمراہ کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افراد کے حقوق اور آزادیوں کے لیے پُرعزم ہے۔

لیکن نئی سفارتکاری سے سب سے زیادہ الگ تھلگ رہنے والے فلسطینی ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ عرب لیڈروں کے تعلقات کے معمول پر آنے کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کی اپنی امیدوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور ان (فلسطینیوں) کے مقاصد عرب دنیا کے بہت سے عام لوگوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہیں۔

سفر کے دوران مسٹر بینیٹ کے عہدیدار انھیں مشرقی یروشلم کے پڑوس شیخ الجراح میں تازہ کشیدگی کے بارے میں آگاہ کرتے رہے، جہاں فلسطینی خاندانوں کو یہودی آباد کاروں کے لیے راستہ بنانے کی خاطر اپنے گھروں سے بیدخلی کا سامنا ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ خلیج کے لیے طیارے میں سوار ہوتے اسرائیلی پریس نے ان سے بحرین کے بجائے پہلے یروشلم کے بارے میں سوال کیا۔ اگرچہ وہ بیرون ملک نئی پیش قدمی کرنے جا رہے ہیں لیکن اسرائیل کے رہنما بنیادی مسائل کو گھر پر نہیں چھوڑ سکتے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.