ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکانے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عمران خان کے وکیل حامد خان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ کا لارجر بینچ کر رہا ہے۔
عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے کہا کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ عدالت توقع کرتی تھی کہ آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے، ایک سیاسی جماعت قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھے گی، 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں، عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں رہ رہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے ہماری بات سنی اور جوڈیشل کمپلیکس تعمیر ہو رہا ہے، اگر وہ اس عدلیہ کے پاس جا کر اظہار کر لیں کہ انہیں ماتحت عدلیہ پر اعتماد ہے، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات واپس نہیں جاتی، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، ان کی کافی فالوونگ ہے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی، ایک سیاسی لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں، اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ گزشتہ 3 سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا، ٹارچر کی تو 70 سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ آپ کے جواب سے یہ اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ہے کہ کیا ہوا، اسد طور اور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں، 3 سال یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی، کاش اس وقت بھی آواز اٹھاتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو معاملہ واپس بھجوایا تھا۔
اس موقع پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون کو بولنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے عمران خان کے وکیل حامدخان سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ معاملہ مبینہ توہینِ عدالت کرنے والے اور عدالت کے درمیان ہے، آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟
وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء تھا تو تقریر کی گئی، آپ نے توہینِ عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان والی ججمنٹ پڑھی ہو گی؟ پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے تنقید کی کبھی پرواہ نہیں کی، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں 12 بجے کیوں کھلیں؟ یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، توہینِ عدالت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، جب زیرِ التواء معاملہ ہو اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ بہت اہم ہے، عمران خان نے عوامی جلسے میں کہا کہ عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء دوبارہ نہیں ہو گا، ہر جج آئین کے ہر لفظ سے اچھی طرح آگاہ ہے، عدالت نے صرف آئین اور سول بالادستی کو بالادست کرنا ہے، کوئی لیڈر سول سپریمیسی کی بالادستی کی بات نہیں کر رہا، اس عدالت کی مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پہلے فیصلے دیے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ نےدانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے کیس میں فیصلے دیے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں، میری اور سپریم کورٹ کے فاضل جج کی تصویر سیاسی جماعت کا سربراہ بنا کر وائرل کر دی گئی، میرے نام پر بیرونِ ملک فلیٹ کی غلط معلومات فراہم کی گئیں، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کیں، آپ کا جمع کرایا گیا جواب عمران خان کے قد کاٹھ کے لیڈر کے مطابق نہیں۔
کمرۂ عدالت سے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک رپورٹر مجھے تنگ کر رہا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ میں خطرناک ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی آمد سے قبل کمرۂ عدالت خالی کرا لیا گیا تھا۔
عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں آمد سے قبل سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، پولیس نے احاطۂ عدالت کو بھی مخصوص وکلاء اور صحافیوں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا۔
انٹری گیٹ سے کمرۂ عدالت تک کے راستے کو ٹینٹ لگا کر بند کر دیا گیا، کورٹ روم میں جانے والے وکلاء اور صحافیوں کو خصوصی پاسز جاری کیے گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کمرۂ عدالت کی سرچنگ کے بعد کارڈ چیک کر کے داخلے کی اجازت ملے گی۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما و عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کمرۂ عدالت سے باہر جانے سے انکار کر دیا۔
پولیس نے بابر اعوان سے کہا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو کمرۂ عدالت کلیئر کرنا ہے، اس لیے آپ باہر چلے جائیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ میں کمرۂ عدالت سے باہر نہیں جاؤں گا۔
عمران خان کے وکیل حامد خان کو کمرۂ عدالت کے باہر روکا گیا تھا۔
کمرۂ عدالت میں صرف بابر اعوان موجود تھے، صحافیوں کو بھی کورٹ روم سے نکال دیا گیا۔
اس موقع پر بابر اعوان کے بیٹے کو کمرۂ عدالت سے نکالا گیا تو بابر اعوان خود بھی اٹھ کر باہر چلے گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان آج عدالتی حکم پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
عمران خان نے توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے جس میں انہوں نے توہینِ عدالت کی کارروائی کو اختیارسے تجاوز قرار دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے سماعت کرنے والے بینچ پر بھی اعتراض اٹھا رکھا ہے۔
پیمراکی جانب سے عمران خان کی 20 اگست کو ایف نائن پارک میں تقریر کا ریکارڈ، ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرپٹ جمع کرایا جا چکا ہے۔
عدالت نے توہینِ عدالت کیس میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے ۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہئے‘‘۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت آج ڈھائی بجے ہو گی ۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے موقع پر کورٹ روم نمبر ون میں پاسز کے ذریعے وکلاء اور صحافیوں کے داخلے کو محدود بنایا گیا ہے۔
احاطۂ عدالت میں وکلا، صحافیوں یا سائلین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
Comments are closed.