امریکہ، بھٹو اور اسٹیبلشمنٹ: عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟
- جعفر رضوی
- صحافی، لندن
عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پاکستان میں حزبِ اختلاف کی ’مشترکہ‘ کوششوں کی ایک ایسی داستان ہے جو کئی اُتار چڑھاؤ دیکھ کر اب اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ مگر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ملک میں حزبِ اختلاف کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں مل کر کسی منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
اس سے قبل بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں منتخب وزرائے اعظم کو ’نکالنے‘ کی مشترکہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اگرچہ اس بار ‘نیوٹرل’ ہونے کے بیانیے کو خاصی اہمیت حاصل ہے مگر پاکستان کے ’مخصوص حالات‘ میں اکثر ان کوششوں کو کم و بیش پسِ پردہ طاقتوں کی غیبی امداد ہر بار ہی میسر رہی ہے۔
اور جیسے آج عمران خان ‘خط’ کا حوالہ دے کر اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کا نشان ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی طرح کے دعوے سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
وزیرِاعظم عمران خان کُھل کر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف زرداری اُن کی بندوق کے نشانے پر ہیں اور وہی اُن کا پہلا نشانہ ہوں گے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ آج عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں جو پاکستان پیپلز پارٹی خاص طور پر پیش پیش ہے، خود اُس کے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور اُن کے اقتدار کے خاتمے کے لیے بھی ’مشترکہ‘ حزب اختلاف نے ہی بھرپور مہم چلائی تھی۔
ذرا دیر کو ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ اور اسٹیبلیشمنٹ پر الزامات کے علاوہ کیا کچھ ایک جیسا ہے اور کیا کچھ الگ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب
16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو پی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز امریکی شہر نیویارک کے لیے روانہ کی گئی تاکہ وہاں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ذوالفقار علی بھٹو کو وطن واپس لا کر باقی ماندہ، زخم خوردہ اور صدمے کے شکار پاکستان کے دو اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جا سکے۔
ذوالفقار بھٹو کو بیک وقت ملک کا صدر اور پہلا سویلین ’چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ بنایا گیا اور بالآخر 14 اگست 1973 کو یہی ذوالفقار علی بھٹو 146 ارکان کی اسمبلی میں 108 نشستیں حاصل کر کے ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔
پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کی تحریک
بھٹو اور مفتی محمود
مگر ملک کو سنہ 1973 کا پہلا متفقہ آئین دینے اور ’سیاست کو ایوانوں سے میدانوں تک لانے والے‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بالکل عمران خان ہی کی طرح محض ساڑھے تین سال بعد ہی ایک ’متحدہ‘ حزب اختلاف کی ‘مشترکہ’ مخالفت کا سامنا ‘پاکستان نیشنل الائینس’ (پی این اے) کی صورت میں کرنا پڑا۔
منتخب وزیراعظم بھٹو کے خلاف یہ تحریک ملک کی نو مختلف سیاسی جماعتوں کے اُس اتحاد نے منظم کی جسے عرف عام میں ‘نو ستارے’ بھی کہا جاتا تھا۔
پانچ جنوری 1977 کو قائم ہونے والے ’پی این اے‘ کے اس اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام، ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعتِ اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمیعت علمائے پاکستان، اختر مینگل کے والد عطا اللّہ مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ (قیوم)، پیر پگاڑا اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے موجودہ سربراہ سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا کے والد شاہ مردان شاہ کی مسلم لیگ (فنکشنل)، نوابزادہ نصر اللّہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور اصغر خان کی تحریک استقلال شامل تھیں۔
جیسے آج ہر طرح کی سوچ رکھنے والی مرکز پسند، وطن پرست، قوم پرست، جمہوریت پسند اور مذہبی جماعتیں اپنی تمام نظریاتی تفریق کے باوجود ایک نکتے یعنی عمران خان کی مخالفت میں ایک جھنڈے تلے جمع ہیں، بالکل اسی طرح پی این اے کی تشکیل بھی صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوئی تھی اور سب جماعتیں ایک ہی نکتے پر متحد دکھائی دیتی تھیں کہ جس قیمت پر بھی ہو ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے نکال دیا جائے۔
جیسے عمران خان کے خلاف ہر نظریے کی حامل تمام جماعتیں مختلف سیاسی اہداف اور مقاصد رکھنے کے باوجود ایک ہوگئی ہیں، بالکل اسی طرح پی این اے کے اس ’قومی‘ اتحاد میں بھی ہر جماعت متفرق اور الگ سیاسی نظریہ رکھنے کے باوجود ایک جھنڈے تلے جمع تھی۔
ابوالاعلیٰ مودودی
پی این اے پر مذہبی جماعتیں حاوی رہیں
پی این اے میں شامل یہ تمام مختلف خیالات اور متصادم نظریات رکھنے والی جماعتیں بھی شامل تو تھیں مگر دائیں بازو کی سخت گیر مذہبی جماعتیں اس اتحاد پر ہمیشہ ہی غالب نظر آئیں۔
پی این اے کے جھنڈے کے سبز رنگ نے اس کے سخت گیر مذہبی ہونے کے تاثر کو مزید گہرا کر دیا تھا جبکہ جھنڈے پر نو ستاروں کی موجودگی نے اسے ‘نو ستارے’ کا عوامی نام بھی دے دیا تھا اور اس تحریک کو نظام مصطفیٰ تحریک کا نام اور نعرہ دینے سے یہ قیام کے فوراً ہی بعد دائیں بازو کے زیر اثر تحریک دکھائی دینے لگی۔
حزبِ اختلاف کی تقریباً تمام تر سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کو بظاہر لبرل (بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے) اور ‘اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست’ کا نعرہ بلند کر کے سیاسی اُفق پر چھا جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی مخالف کے طور پر دیکھا گیا۔
سیاسی مماثلت کے طور پر عمران خان اور بھٹو کے دور میں ایک قدرِ مشترک اسلامی ممالک کی کانفرنس بھی کہی جا سکتی ہے۔
22 مارچ 2022 کو دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں تب منعقد ہوا تھا جبکہ بالکل اِسی طرح 22 فروری 1974 کو اسی تنظیم او آئی سی کا سربراہ اجلاس لاہور میں اُس وقت منعقد ہوا تھا جب ذوالفقار بھٹو وزیر اعظم تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ جس وقت 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت عروج پر تھی۔
’اسلامی سربراہی کانفرنس کا یہ کارنامہ بھی انھوں نے پوری حزبِ اختلاف کو ساتھ ملا کر انجام دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی سفارتکاری، وزارت اور صدارت کا بھرپور سیاسی تجربہ، اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت، ذہانت اور عوامی مزاج کو سمجھنے کی زبردست صلاحیت بھی تھی۔‘
نظریاتی سیاست کے اُس زمانے میں ذوالفقار بھٹو سیاسی اُفق پر اس وقت چمکے جب ملک تازہ تازہ دولخت ہوا تھا اور فوج کی ایک بڑی تعداد نوزائیدہ بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن چکی تھی اور ان 90,000 فوجیوں کو بھی وطن واپس لانے کا کارنامہ ذوالفقار بھٹو نے ہی انجام دیا تھا۔
شدید ترین مخالفت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے ساری حزب اختلاف کو اس قومی مسئلے پر یکجا کیا اور پھر ساری سیاسی قوتوں کی اجتماعی رائے کے تحت پارلیمان کی متفقہ حمایت حاصل کر کے انڈیا گئے اور شملہ معاہدہ کر کے اپنے جنگی قیدی وطن واپس لائے۔
ملک ٹوٹ جانے کا صدمہ، جنگ کے اثرات اور اس بنیاد پر فوج کے حوصلے جیسی ہی وجوہات تھیں کہ پسِ پردہ قوتیں بھی سیاسی طور پر اس قدر طاقتور اور غالب نہیں تھیں جیسے کہ آج کی اسٹیبلیشمنٹ دکھائی دیتی ہے۔
اس وقت کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سنہ 1973 کے آئین کی تشکیل کے بعد آہستہ آہستہ پیش قدمی تو اسلام اور جمہوریت کے نعرے کے ساتھ کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی سوشلزم کا نعرہ اپنانے اور اسی کے تحت نیشنلائزیشن کا عمل بھی شروع کر دیا اور ان نجی پیداواری اداروں کو ریاستی تحویل میں لینا (نیشنلائز) کرنا شروع کر دیا۔
مظہر عباس بتاتے ہیں کہ ’میں کسی کتاب میں پڑھ چکا ہوں کہ چین کے اُس وقت کے وزیراعظم چُو این لائی نے بھی ذوالفقار بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذ کرنے میں جلد بازی سے گریز کیا جائے۔ ایک تو اُس وقت حکومت میں اس عمل کو انجام دینے کے لیے اہل لوگ موجود نہیں تھے اور دوسرے اس کوشش میں ملک کا صنعتکار طبقہ بھی بھٹو کے خلاف ہو گیا۔‘
’اگرچہ بھٹو کمیونسٹ نہیں تھے مگر بعض حلقوں یہی تاثر بن گیا کہ وہ کمیونزم کا راستہ اپنا رہے ہیں۔‘
1970 کے پاکستان میں مختلف آرا رکھنے کی اجازت تھی
لیکن سنہ 1970 کے پاکستان میں جہاں روشن خیال سمجھے جانے والے اور اشتراکی خیالات رکھنے والے حلقے بھی بہت مضبوط سیاسی قوت تھے اور تعلیمی اداروں میں نیشنل سٹوڈینٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور اسلامی جمیعت طلبا جیسی طلبا تنظیمیں ہوں یا کارخانوں میں مزدور انجمنیں (ٹریڈ یونینز) ہر شعبۂ زندگی میں روشن خیال اشتراکی (لبرل) اور بنیاد پرست (مذہبی) حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ رہتا تھا۔
ایسے میں ذوالفقار بھٹو نیشنلائزیشن جیسے عمل پر مبنی اپنے اقدامات کی بنا پر تیزی سے مقبول ہوتے رہے۔
مظہر عباس نے کہا کہ ’ذوالفقار بھٹو نے اکیلے اور اپنے بل بوتے پر سیاست کی اور یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور یہ اندازہ غلط بھی نہیں تھا۔ اور اسی کامیابی و مقبولیت کے پیشِ نظر ذوالفقار بھٹو کے بعض مشیروں نے انھیں آئندہ مُدت کے لیے بھی وزیراعظم بننے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا مشورہ دیا تاکہ زیادہ اکثریت سے دوبارہ انتخابی کامیابی حاصل کر کے مزید طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ طویل المدت اقتدار بھی حاصل کر لیا جائے اور بھٹو صاحب نے اپنی مقبولیت ہی کی بنیاد پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔‘
اس وقت کے اخبارات، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے وہ انتخابات جو 1977 کے وسط میں ہونا تھے، قبل از وقت یعنی جنوری 1977 میں ہی کروانے کا فیصلہ کیا تاکہ حزب اختلاف کو فیصلہ سازی، انتظامات اور گٹھ جوڑ کرنے کے لیے زیادہ وقت نہ مل سکے۔
ایسے میں سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والی جماعتوں نے ان مجوزہ انتخابات میں اکیلے ہی پیپلز پارٹی کا سامنا کرنے سے بہتر یہی سمجھا کہ سب کو ساتھ ملا لیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں گٹھ جوڑ کے لیے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہوگیا۔
’تمہاری بخشش نہ ہوئی تو اِسی وجہ سے نہیں ہوگی کہ تم ذوالفقار بھٹو کے خلاف ہو‘
چھوٹی بڑی ان کم و بیش نو مختلف سیاسی جماعتوں نے ذوالفقار بھٹو اور اُن کی پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بڑے حکومت مخالف سیاسی اتحاد پی این اے میں ہی شمولیت کو فوقیت دی اور سب جماعتوں نے ایک ہی جھنڈے تلے متحد ہو جانے کو غنیمت جانا اور ہَل کے انتخابی نشان اور پی این اے کی سبز پرچم تلے جمع ہو گئیں اور یہ بکھری ہوئی حزب اختلاف پوری قوت یکجا کر کے ذوالفقار بھٹو کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیئر رہنماؤں میں شامل قاری شیر افضل نے ایک بار مجھے (مظہر عباس کو) بتایا کہ جب 1977 میں پی این اے کی تحریک منظم ہونے لگی تو جے یو آئی کی قیادت میں اختلاف پیدا ہوا۔ جے یو آئی کے بہت سے سخت گیر رہنماؤں کا موقف تھا کہ احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دلوانے والے ذوالفقار بھٹو کے خلاف نظام مصطفیٰ تحریک نہیں چلائی جا سکتی۔‘
’اِن رہنماؤں کا خیال تھا کہ بھٹو نے تو یہ معاملہ کر کے عالم اسلام کی ایسی خدمت انجام دی ہے جو پہلے کبھی نہیں دی گئی تھی۔ بھٹو کے خلاف تحریک کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے مگر نفاذِ نظامِ مصطفیٰ نہیں ہو سکتی۔ بعض سخت گیر رہنماؤں نے تو مفتی محمود سے یہ تک کہہ دیا کہ اگر تم لوگوں کی بخشش نہیں ہوئی تو اِسی وجہ سے نہیں ہوگی کہ تم ذوالفقار بھٹو کے خلاف نظام مصطفیٰ تحریک چلانا چاہتے ہو۔‘
عمران کی طرح بھٹو کے خلاف بھی مہنگائی کی آوازیں اٹھی تھیں
لیکن پھر بھی تحریک چلائی گئی اور آج ہی کی طرح عمران خان کی حکومت کے خلاف مہنگائی، غربت و بیروزگاری جیسے مسائل کو اجاگر کر کے حکومت مخالف سیاسی فضا قائم کی گئی۔
سنہ 1970 کی قیمتوں پر واپسی ایک مقبول سیاسی نعرہ بن گیا۔ لیکن نفاذِ شریعت کا نعرہ سب بیانیوں پر چھاتا چلا گیا۔ نظامِ مصطفیٰ اور شرعی قوانین کا نفاذ جیسے نعرے گلی گلی سُنائی دینے لگے۔
مقبولیت کے پیشِ نظر حزب اختلاف کے اتحاد پی این اے نے نظامِ مصطفیٰ اور قوانینِ شریعت کے نفاذ کے نعروں کو ہی انتخابی ماحول کی بنیاد بنا لیا۔
مظہر عباس بتاتے ہیں کہ ’پھر جب تحریک چلی تو آج ہی کی طرح حکومت و حزب اختلاف دونوں نے جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں سے زبردست سیاسی فضا بنا دی، یہ سیاسی گہما گہمی ملک بھر کے شہری علاقوں میں زیادہ مؤثر رہی۔‘
’دو جلوس شاہراہ فیصل (کراچی) پر بھی نکالے گئے۔ ایک اصغر خان نے نکالا تو ایک ذوالفقار بھٹو نے۔ ہم نے بطور طالبعلم دونوں دیکھے۔ دونوں میں زبردست حاضری تھی۔‘
’وہی اصغر خان جو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے سنہ 1960 کے اواخر میں گرفتاری دے چکے تھے۔ انھوں نے ہی بھٹو کے خلاف جگہ جگہ جلسے کیے اور جلوس نکالے اور ذوالفقار بھٹو کا آخری جلسہ ککری گراؤنڈ پر ہوا تھا جو رات کے چار بجے تک چلا۔‘
کئی کتابوں اور پس پردہ گفتگو میں اُس وقت کے حالات کا تجزیہ کرنے والے کئی دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور اُس وقت کے اخبارات کے مطابق پی این اے نے بلاشبہ جلسے جلوس وغیرہ تو بہت زبردست کیے اور شہری علاقوں میں عوامی اجتماعات بھی بہت زبردست ہوئے مگر یہ اتحاد ذوالفقار بھٹو جیسا عروج یا انتخابی کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
اس وقت کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی 216 میں سے 155 پر فاتح رہی جبکہ پی این اے کو محض 36 نشستوں پر کامیابی حاصل ہو سکی۔
ان اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے مطابق جب پیپلز پارٹی کو یہ زبردست انتخابی کامیابی حاصل ہوئی تو پی این اے نے انتخابات میں دھاندلی کا بیانیہ اپنا لیا اور اپنی غیر متاثر کن انتخابی کارکردگی کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا اور ذوالفقار بھٹو کو ہی اس دھاندلی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔
حکومت کے خلاف اس الزام تراشی کی فضا میں ہی ملک بھر کے شہری علاقوں میں زبردست احتجاج، جلسے جلوسوں اور پُرتشدد ہو جانے والے سیاسی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آہستہ آہستہ پھیلتا چلا گیا۔
اخبارات کے مطابق اپنے مشیروں کے مشورے پر ذوالفقار بھٹو نے پی این اے سے مذاکرات کا آغاز کیا اور ممکن تھا کہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتے کہ اچانک پی این اے نے صرف ایک نعرہ اپنا لیا کہ ذوالفقار بھٹو اقتدار سے الگ ہو جائیں۔
مگر ذوالفقار بھٹو کے قابل اعتماد اور دیرینہ ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن کی مداخلت، تجربہ کاری اور مذاکرات کی زبردست صلاحیت کی وجہ سے جون 1977 میں بالآخر ذوالفقار بھٹو اور پی این اے کے مذاکرات ایک بہتر سیاسی حل کے لیے ساتھ چلنے کی اس نہج پر پہنچ گئے کہ دونوں کسی سمجھوتے پر دستخط کر سکیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں دونوں جانب کچھ عناصر تھے جو جمہوری رویہ رکھتے تھے تو اسی لیے سمجھوتے کی فضا بھی پیدا ہوئی۔
اخبارات کے مطابق سمجھوتے پر دستخط کے لیے پانچ جولائی 1977 کی تاریخ بھی مقرر کر لی گئی کہ مذاکراتی ٹیم کی ولولہ انگیزی کے باوجود پی این اے کے بعض رہنماؤں نے اچانک مذاکرات اور سمجھوتے پر اپنے تحفطات کا اظہار شروع کر دیا اور یہی وہ موقع تھا جب ذوالفقار بھٹو نے بدنامِ زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) اور نیم فوجی ادارے رینجرز کی مدد سے سیاسی مخالفین کو ’طاقت سے کچلنے‘ کا فیصلہ کیا۔
’ریاستی طاقت کا استعمال بنیادی غلطی تھی‘
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’ذوالفقار بھٹو نے یہی بنیادی غلطی کی کہ اپنے سیاسی مخالفین کو ریاستی طاقت سے دبانا چاہا۔‘
’اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کہ آنے والے دنوں میں ریاستی طاقت کا ہتھیار خود اُن کے اپنے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ورنہ اُس وقت ایسی صورتحال تھی کہ وہ خاص طور پر بائیں بازو کی حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی جیسی جماعت کو ساتھ ملا کر آسانی کے ساتھ معاملات نمٹا سکتے تھے۔‘
’لیکن غلطیاں ہوتی رہیں مثلاً لاڑکانہ سے انتخاب کے وقت جماعت اسلامی کے رہنما مولانا جان محمد عباسی بھٹو کے خلاف انتخابی امیدوار تھے مگر (شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی مبینہ مداخلت سے) جان محمد عباسی کو ’غائب‘ کروا کر ذوالفقار بھٹو کو انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب کروانے جیسی بھیانک غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔‘
مظہر عباس نے کہا کہ ’بہت سے لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کئی سینیئر فوجی جنرلز کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ضیاالحق کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کی ایک اہم وجہ تھی اور اسی غلطی نے درحقیقت فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔‘
مظہر عباس نے کہا ’مگر جنرل ضیا کو فوج کا سربراہ بنانے کی بھی ایک داستان ہے۔ کچھ عرصے قبل مجھ سے ذوالفقار بھٹو دور میں سندھ کے صوبائی وزیر خزانہ اور بعد میں گورنر سندھ رہنے والے کمال اظفر نے دعویٰ کیا وہ خود اس موقع پر موجود تھے جب اُردن کے شاہ حسین کی فون کال ذوالفقار بھٹو کو آئی جس میں فرمائش کی گئی تھی کہ جنرل ضیاالحق کو ہی آرمی چیف مقرر کیا جائے۔‘
’غالباً اس لیے کہ جنرل ضیا اپنے فوجی کیریئر کی دوران عرب ممالک میں خدمات انجام دے چکے تھے اور شاہ حسین کے کہنے پر ہی بھٹو صاحب نے جنرل ضیا کو آرمی چیف مقرر کیا۔‘
’یہ بیرونی سازش تھی‘
لیکن پیپلز پارٹی کی مرکزی کور کمیٹی کے رُکن اور سینیٹر تاج حیدر سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف یہ سیاسی محاذ آرائی نہ تو محض فوجی اسٹیبلیشمنٹ کا فیصلہ تھی اور نہ ہی محض مقامی نوعیت کی کارروائی۔
تاج حیدر نے کہا کہ ’ہماری سیاست میں دو قوتیں ہیں۔ ایک اسٹیبلیشمنٹ ہے، دوسرے پاکستان کے عوام۔ ڈالر سستا ہوا تھا ناں۔ تو امریکی سامراج عوامی طاقت سے ڈرا ہوا تھا۔ عوامی طاقت عالمی سطح پر کام کر رہی تھی۔ اسلامی ممالک کی کانفرنس (1974) ہوئی تھی، بھٹو اُس کے رہنما بنے، غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس ہوئی تو یہ بھی عالمی پیمانے پر ایک اُبھار ہو رہا تھا۔ بھٹو صاحب کو عالمی کھلاڑیوں نے اقتدار سے محروم کیا۔‘
’پاکستان سوشلزم کا مرکز اور سامراج دشمنی کا گڑھ بن گیا تھا۔ جو اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی وہ سامراجیت کے خلاف تھی۔ اسلامی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ اسلامی ممالک کے سربراہان ایک چھت تلے جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ القدس کو آزاد کروائیں گے یعنی اسرائیل جو امریکہ کا سب سے بڑا مہرہ تھا، اُس کے خلاف یہ سب ممالک متحد ہو رہے تھے۔ ایک طاقت بن رہی تھی تو ظاہر ہے کہ اُن (امریکہ) کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا۔’
اور بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ ’کارِ ثواب‘ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی لابی اور اسٹیبلیشمنٹ اور بھی اس کے لیے امریکہ ہی کے زیر اثر کام کر رہی تھی۔
تاج حیدر کہتے ہیں کہ ’مجھ سے تو بعد میں (جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما) پروفیسر غفور نے کہا اور انھوں نے تو اپنی کتاب ’اور لائن کٹ گئی‘ میں بھی لکھا کہ ہمیں تو دور دور تک پتہ نہیں کہ اس (بھٹّو کو سیاسی منظر سے ہٹانے) کے پیچھے کون کون تھا ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ملک و قوم کے لیے کر رہے ہیں۔‘
جیسے آج عمران خان ’خط‘ کا حوالہ دے کر اپنی ہی پیدا کردہ موجودہ سیاسی صورتحال کو ’عالمی سازش‘ قرار دے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے بعض حامی اور پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما بھی حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کے مجتمع ہو جانے کو محض ’اندرونی معاملہ‘ نہیں سمجھتے۔
جیسے اب عمران خان ‘مغربی طاقت’ کو اپنے اپنے اقتدار کے خلاف ’سازش‘ کا ذمہ دار ہونے کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں بالکل ویسے ہی پیپلز پارٹی نے بھی جنرل ضیا کی قیادت میں ذوالفقار بھٹّو کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت اور بھٹّو کی معزولی کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا تھا۔
اس دور میں شائع ہونے والے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خود ذوالفقار بھٹّو نے بھی کسی کا نام لیے بغیر ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’غیر ملکی طاقتیں‘ انھیں اقتدار سے باہر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔
سنہ 2005 میں شائع ہونے والی کتاب ’پاکستان اینڈ دی ایمرجنس آف اسلامک ملیٹینسی ان افغانستان‘ (پاکستان اور افغانستان میں اسلامی شدّت پسندی کا ظہور) کے مصنف رضوان حسین کے مطابق پیپلز پارٹی نے یہی مؤقف اپنایا کہ اس فوجی بغاوت کو امریکی آشیرباد حاصل تھی۔
سنہ 2000 میں شائع ہونے والی حیدر خان نظامانی کی کتاب ‘دی روُٹس آف رہیٹرک: پالیٹکس آف نیوکلیئر ویپنز ان انڈیا اینڈ پاکستان’ اور رضوان حسین کی کتاب ’پاکستان اینڈ دی ایمرجنس آف اسلامک ملیٹینسی اِن افغانستان‘ کے مطابق کئی پاکستانی دانشور اور محققین و سیاستدان اس معاملے میں بھٹّو کے ہم آواز تھے کہ انھیں اقتدار سے محروم کرنے میں غیر ملکی طاقتوں (اگرچہ بھٹّو نے بھی عمران خان کی طرح کسی نام نہیں لیا تھا) یعنی امریکہ کا کلیدی کردار ہے۔
جیسے آج بھی امریکہ نے عمران خان کے خلاف سیاسی محاذ آرائی یا عدم اعتماد سے لاتعلقی کا اظہار باقاعدہ اپنے ترجمان (نیڈ پرائس) کے ذریعے کیا ہے بالکل ایسے ہی اُس وقت بھی امریکہ نے ذوالفقار بھٹّو کی اقتدار سے معزولی میں اپنے کسی بھی کردار کی کُھل کر نفی کی تھی اور اس معاملے میں کسی بھی طرح کے ملوّث ہونے سے واضح انکار کیا تھا۔
سنہ 2005 میں شائع ہونے والی حسین حقانی کی کتاب ’پاکستان: بٹوین موسک اینڈ ملڑی‘ میں اشارہ کیا گیا ہے (سابق) امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک سے بھی جنرل ضیا کی اس فوجی بغاوت کی ’معلومات یا منظوری‘ سے متعلق سوال کیا جا چکا ہے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے بھی 10 مئی 1998 کو اپنے نمائندے ناصر ملک کے حوالے سے خبر دی کہ بے نظیر بھٹّو نے بھی کہا کہ اُن کے والد کو نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرنے کی پاداش میں ’سپر پاور‘ نے ہی پھانسی کے پھندے تک پہنچایا۔ (اگرچہ بے نظیر بھٹّو نے بھی کسی طاقت یا ملک کا نام نہیں لیا تھا۔)
مظہر عباس کے مطابق پی این اے کی تحریک کے بارے میں پاکستانی خفیہ اداروں کے بعض سابق عہدیداروں نے بھی لکھا کہ امریکہ سے ’تحریکِ نظام مصطفیٰ‘ کے لیے ’ڈالرز کی بارش‘ ہونے لگی تھی۔
سیاسی تاریخ کی کتابوں میں یہ الزام بھی موجود ہے کہ چونکہ تحریک استقلال کے رہنما اصغر خان خود 23 جولائی 1957 سے 22 جولائی 1965 تک ایئر فورس کے سربراہ بھی رہ چکے تھے لہٰذا اُن کا پاکستان کی خفیہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطہ تھا جس نے انھیں ذوالفقار بھٹّو اور اُن کی پیپلز پارٹی کے خلاف اس سیاسی محاذ آرائی کے لیے بھرپور مالی مدد (ملینز) فراہم کی تھی۔
اصغرخان نے اپنی جماعت تحریک استقلال پی ٹی آئی میں ضم کر کے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی
سنہ 2011 میں شائع ہونے والی غفور احمد کی کتاب ’پھر مارشل لا آ گیا‘ کے مطابق یہ اصغر خان ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے فوجی بغاوت اور ذوالفقار بھٹّو کو پھانسی دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اخبارات اور سیاست کے موضوع پر لکھی گئی دیگر کتب کے مطابق پھر پی این اے کی اتحاد سے جڑے ’بعض‘ رہنماؤں نے کسی بھی ممکنہ سمجھوتے کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق اور (خاصے مذہبی خیالات رکھنے والے) بحری فوج کے سابق سربراہ (اور اُس وقت) کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل محمد شریف سے رابطوں میں دونوں فوجی سربراہان کو اس امر پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ کسی بھی قیمت پر ذوالفقار علی بھٹّو کو اُن کے بیشتر ساتھیوں سمیت اقتدار سے علیحدہ کر دیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر بھی ذوالفقار بھٹّو کے خلاف اس سارے ’کھیل‘ کا ایک تاریخی پس منظر بتاتے ہیں۔
تاج حیدر نے بتایا کہ ’اسٹیبلیشمنٹ کے امریکہ سے تعلقات کے تانے بانے بہت پرانے ہیں۔ جب پاکستان بنا تھا تو سلامتی سے متعلق بہت سنگین تشویش تھی۔ افواجِ پاکستان بہت کمزور تھیں۔ انھیں مسلّح کرنا بہت ضروری تھا۔ تو لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی دونوں نے امریکہ سے فوجی امداد لی۔ اس سے امریکی سامراج اور پاکستان کی دفاعی قوتوں کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا چلا گیا۔‘
’یہ تعلق پھر اس قدر گہرا ہو گیا کہ پاکستان ایئر فورس کو اگر کسی سپیئر پارٹ کی بھی ضرورت پڑتی تھی تو وہ بھی وہیں سے لینا پڑتا تھا اور شرائط کے ساتھ لینا پڑتا تھا۔ یعنی امریکہ پر پاکستان کا انحصار بڑھتا چلا گیا۔ مقامی بینیفیشری (فائدہ اٹھانے والے) بھی اس کے گرد جمع ہونے لگے جن کا فائدہ اس میں تھا کہ پاکستان کی پالیسی سازی میں ملک کی مسلّح افواج کلیدی کردار بن جائیں۔‘
’اسی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ جگہ ملتی چلی گئی پھر تو انھوں نے سیاسی جماعتیں بھی بنائیں ’سب کچھ‘ کیا۔ یہ اتحاد (پی این اے) بھی جمہوریت کے خلاف بنایا گیا تھا۔‘
مظہر عباس بھی کہتے ہیں کہ ’پی این اے کی تحریک کا آغاز بھی فوجی اسٹیبلیشمنٹ کی ایما پر کیا گیا۔‘
’جب شہری علاقوں میں تحریک کا شدید ردعمل سامنے آیا تو پھر حزب اختلاف کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ اگرچہ ذوالفقار بھٹّو کے مشیروں کا اندازہ تھا کہ یہ تحریک خود بخود دم توڑ جائے گی مگر نہ تحریک ختم یا ٹھنڈی ہوسکی نہ سیاسی بے چینی ہوئی۔‘
بڑھتے ہوئے پُرتشدد مظاہروں احتجاج اور سیاسی عدم استحکام کے تناظر میں سیاسی حلقوں کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کیے جانے والے مطالبات بالآخر رنگ لا کر رہے۔
مہینوں جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کے مطالبات کے تناظر میں بالآخر 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹّو کو ’معزول‘ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مارشل لا نافذ کر دیا۔
اخبارات کے مطابق 5 جولائی 1977 کو جب پی این اے اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی ممکنہ معاہدے پر دستخط کا امکان تھا، عین اُسی رات جنرل ضیا کی قیادت میں فوج نے ذوالفقار بھٹّو کا تختہ الٹ دیا۔
ملک پر تاریخ کا بدترین مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور ہر قسم کی شخصی آزادیاں اور حقوق سلب کر لیے گئے۔
پیپلز پارٹی کے خلاف زبردست ’کریک ڈاؤن‘ ہوا اور فوجی حکومت نے راتوں رات ذوالفقار بھٹّو سمیت پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں اور کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر دی گئیں۔ سرکاری ٹی وی، ریڈیو، نیشنل پریس ٹرسٹ کے سرکاری یا پھر نجی ادارت کے تحت شائع ہونے والے اخبارات و ذرائع ابلاغ سب ہی زبردست پابندیوں اور بدترین سنسر شپ کی زد میں آ گئے۔
شاعر، ادیب، دانشور اور مصنفین کی بھی بڑی تعداد یا تو گرفتار ہوئی یا نظر بند کر دی گئی۔ کئی ایک تو ملک سے باہر ہی چلے گئے تاکہ دوسرے ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزار سکیں یا پھر سیاسی پناہ حاصل کر سکیں۔
تاریخ اور تاریخ و سیاست کے معاملات پر کئی سیاسی کتابوں کے مصنفین سب ہی اس بات پر منقسم نظر آتے ہیں کہ فوج نے ایسا سیاسی ابتری کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا یا پھر بیرونی اشارے پر ذوالفقار بھٹّو کی حکومت ختم کی گئی یا پھر دونوں وجوہات سے۔
لیکن 24 جنوری 1978 کو ذوالفقار بھٹّو کی مخالفت کے لیے قائم ہونے والا حزبِ اختلاف کا اتحاد یعنی پی این اے اپنے ’مقاصد حاصل‘ کر لینے پر ’تحلیل‘ ضرور کر دیا گیا۔
ذوالفقار بھٹّو کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے وعدہ تو کیا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں گے مگر جب تک جنرل ضیا زندہ رہے سیاسی بنیادوں پر انتخابات کبھی نہیں ہو سکے، اُن کی زندگی میں آٹھ برس بعد ہوئے بھی تو غیر جماعتی بنیادوں پر۔
مظہر عباس نے مزید بتایا کہ ’جنرل ضیا الحق کو بھی 90 روز کے اندر ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ کسی اور نے نہیں بلکہ دائیں بازو (کی مذہبی سوچ رکھنے والوں) نے دیا تھا۔‘
’یہ مشورہ میڈیا اور دانشوروں نے دیا تھا کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ ذوالفقار بھٹّو کی مقبولیت واقعی اصلی تھی اور مارشل لا کے بعد بھی اگر انتخابات ہو جاتے تو وہی جیت سکتے تھے۔ مگر دائیں بازو کی جانب مائل دانشوروں نے جن میں الطاف حسین قریشی ، مجیب الرحمن شامی ، مصطفیٰ صادق ، مولوی صلاح الدین وغیرہ شامل تھے اُن سب نے جنرل ضیا کو انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا۔ مجیب الرحمن شامی نے کئی برس بعد مجھ (مظہر عباس) سے گفتگو میں تصدیق بھی کی کہ ایسا ہی ہوا تھا۔
’اس مشورے پر جب ضیا الحق نے کہا کہ میں تو وعدہ کر چکا ہوں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اب انتخابات ملتوی کیے تو رائے عامہ کیا کہے گی؟ تو پریس اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے دانشوروں نے جنرل ضیا کو تسلّی دی کہ رائے عامہ تو پھر ہم بنا دیں گے مگر بھٹّو صاحب (انتخابات کے ذریعے سیاست میں) واپس آگئے تو زیادہ بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔‘
مظہر عباس کے مطابق جنرل ضیا نے انتخابات کو التوا میں ڈال دیا ’اور پھر وہ ہوا جس کا کئی دہائیاں بعد جسٹس نسیم حسن شاہ نے عدالتی قتل کہہ کر اعتراف کیا۔‘
طویل مقدمے ، عدالتی کارروائیوں، زبردست عوامی احتجاج اور قومی و عالمی مخالفت اور رہائی کے بین الاقوامی مطالبات کے باوجود جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹّو کو پھانسی دے دی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’بھٹّو کی پھانسی سے یہ روایت بھی قائم ہوگئی کہ جو بھی سیاستداں ’مخصوص‘ علاقے میں قدم رکھے گا یا ’شجرِ ممنوعہ‘ کی جانب مائل ہوگا تو ‘نظام’ حرکت میں آئے گا یہاں تک کہ ذوالفقار بھٹّو کی بیٹی کو بھی سمجھوتہ کر کے ہی ایوانِ اقتدار کے راستہ کھلا ہوا مل سکا۔‘
ذوالفقار بھٹّو کے حامی اور ساتھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسند طاقتوں کی سرپرستی تو امریکہ نے اپنے مفادات اور مقاصد کے تحت کی تاکہ چین اور روس کے خلاف حکمت عملی اپنانے میں پاکستان کے اندر رکاوٹ نہ ہو سکے۔
تاج حیدر کہتے ہیں کہ ’پھر روس کے خلاف مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو جو بالکل ہی الگ تھلگ تھیں اُن کو مرکزی دھارے میں لایا گیا، مسلّح کیا گیا، اور ٹیکس فری سہولتیں فراہم کی گئیں۔ سائیکل پر چلنے والے (مولوی اور مذہبی پیشوا) آٹھ آٹھ گاڑیوں کے قافلے میں چلنے لگے، پورے پورے لشکر تیار کیے گئے۔ اسی وجہ سے مشکلات بھی سامنے آئیں۔ ملک میں ‘کلاشنکوف کلچر’ آگیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف رہی۔ عدالتیں آج بھی بے نظیر بھٹّو کے قاتلوں کو رہا کررہی ہیں تو وہ سوچ آج تک باقی ہے۔ پروفیسر غفور صاحب نے مجھے (تاج حیدر کو) بتایا کہ چیف آف آرمی سٹاف کے یہاں ہونے والے ایک اجلاس میں (غلام مصطفیٰ) جتوئی صاحب اپنی گاڑی پر پارٹی کا جھنڈا لگا کر چلے گئے تو کسی نے کہا کہ یہ جھنڈا تو ہٹایں۔‘
ایک سوال پر تاج حیدر نے کہا ’دیکھیں دو سیاسی جماعتوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاق جمہوریت) پر دستخط کئے تو انھوں نے تیسری جماعت بنا دی۔‘
مگر پی این اے کی تحریک میں نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی یا پھر تحریک استقلال جیسی جمہوری سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے سوال پر تاج حیدر نے کہا کہ ’جب ایسی جماعتوں نے دیکھا کہ بہت بڑا نقصان کر لیا ہے تو پھر یہ جماعتیں ایم آر ڈی کی تحریک میں (پیپلز پارٹی کے) ساتھ آ کر کھڑی ہوئیں جب انھوں نے دیکھا کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے عوام اس کے خلاف ہیں تو پھر ایم آر ڈی میں ساتھ آئے وہ اور اس ماحول کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کیا۔‘
میں نے تو ایک دفعہ امریکی سفیر سے پوچھا کہ آپ کو اس پر کیوں فکر نہیں ہے کہ دنیا کے لوگ آپ سے نفرت کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، سڑک پر کسی کو بھی روک لیں وہ امریکہ کے خلاف بات کرے گا جب کہ آپ سب کو ’امداد‘ بھی دیتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں چین کے بارے میں بات کریں لوگ اُن کی تعریف ہی کرتے ہیں۔
تاج حیدر نے کہا کہ ’ذوالفقار بھٹّو کو پھانسی تو چڑھا دیا مگر ملک کے مسائل آج بھی وہیں ہیں۔‘
Comments are closed.