خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کے کیس میں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
دوبارہ سماعت کے دوران پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے ابھی تک تفتیش جوائن نہیں کی ہے۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ تفتیشی افسر کے پاس عمران خان کا بیان موجود ہے، پراسیکیوٹر بتائیں کہ انہوں نے ٹائم لینا ہے یا بحث کرنی ہے؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کو 3 نوٹسز بھجوائے کہ عمران خان تفتیش کے لیے پیش ہو جائیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوٹر قانون کی جس سیکشن کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں ملزم نہیں، گواہوں کا ذکر ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ پولیس کے سامنے پیش ہو کر ہی شاملِ تفتیش ہونا ہے؟
اس سے قبل آج صبح کو سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان اور تفتیشی افسر کے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے شاملِ تفتیش ہونے کے حوالے سے بیانات میں تضاد سامنے آیا۔
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ان کے مؤکل عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس آنے کی اجازت دی جائے۔
جج نے کہا کہ یہ بات آپ پہلے بتاتے تو ہم پہلے ہی اجازت دے دیتے۔
جج نے ان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شاملِ تفتیش ہوئے ہیں؟
بابر اعوان نے جواب دیا کہ عمران خان شاملِ تفتیش ہوگئے ہیں، تفتیشی افسر نے خود بتایا تھا کہ بذریعہ وکیل شاملِ تفتیش ہوئے ہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹس بھجوائے ہیں، وہ ابھی تک شاملِ تفتیش نہیں ہوئے ہیں، وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔
جج راجہ جواد عباس نے کہا کہ آپ تک بیان پہنچا جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا، اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر عدالت کی رہنمائی کریں، ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟
جج راجہ جواد عباس نے کہا کہ عمران خان عدالت آ جائیں تو باقی دلائل سن لیں گے۔
عدالت کی جانب سے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔
کیس کی 11 بجے دوبارہ سماعت ہوئی تو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان عدالت میں پیش ہو گئے۔
جج نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ عمران خان کی خود موجودگی کیسے ضروری ہے، سیکشن 160 پڑھیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے سیکشن 160 پڑھ کر سنا دی۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں بھی یہی سیکشن پڑھنا چاہتا ہوں، اس میں لکھا ہے کہ تفتیشی افسر گواہان کو بلا سکتا ہے، عمران خان اس کیس کے گواہ نہیں ہیں، قانون اسمبلی بناتی ہے، اس میں کوئی اضافہ کوئی بھی خود نہیں کر سکتا، میں نے بیان لکھ کر دے دیا جسے ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، یہ عدالت ناقص تفتیش پر پولیس والوں کو سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے، انہوں نے ضمنی میں کیوں نہیں لکھا کہ ملزم کا وکیل آیا اور اس نے بیان جمع کرایا۔
عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ خود بتاتے ہیں کہ کالعدم تنظیمیں پیچھے لگی ہیں، اگر عمران خان تھانے جائیں اور کوئی انہیں مار دے؟ ان کا کیا پتہ کہ اپنے بھی 2 بندے مروا دیں، صبح آفر کی تھی کہ یہاں ہی بیٹھ جاتے ہیں، یہ پوچھ لیں کیا سوال پوچھنا ہے، ناقص تفتیش پر پولیس افسر کو عدالت شوکاز نوٹس جاری کر سکتی ہے، اس کا ٹرائل نہیں ہو گا، سمری پروسیڈنگ ہو گی جس کی سزا 2 سال تک قید ہے، ملزم پولیس کے سامنے اعترافِ جرم بھی کر لے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، پھر یہ شاملِ تفتیش کرنے کے لیے پیش ہونے کی شرط کیوں رکھ رہے ہیں؟
بابر اعوان نے کہا کہ جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر کو 2 مرتبہ بیان لکھ کر دیا، جب سے یہ پولیس آئی ہے وکلاء کو تھانوں میں جانا پڑ رہا ہے، وکلاء تھانے گئے تو کہا کہ چیف کمشنر کے آڈیٹوریم آئیں، میں نے عمران خان سے پوچھے بغیر آفر کی کہ انویسٹی گیشن کرنی ہے تو عدالتی احاطے میں کر لیں، یہ طے کر لیں کہ تفتیش کرنی ہے یا ہراسمنٹ چاہتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے الفاظ سے ڈر گئے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کی تقریر پر پابندی لگائی گئی؟
جج نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی والا معاملہ تو ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ آدھی ایف آئی آر تو یہیں اُڑ گئی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی ملزم کے تفتیش جوائن کرنے کی بات کر رہے ہیں، جے آئی ٹی یا تفتیشی افسر نے ہی طے کرنا ہے کہ تفتیش کا طریقہ کیا ہو گا۔
عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی۔
واضح رہے کہ خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کے کیس میں عدالت نے عمران خان کی آج تک عبوری ضمانت منظور کی تھی۔
عدالت نے آج فریقین سے حتمی دلائل بھی طلب کر رکھے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو مقدمے کا چالان جمع کرانے سے روکا اور عمران خان کو پولیس کے سامنے شاملِ تفتیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
Comments are closed.