عمان کے دورا دراز کے گاؤں کمزار کو ’عرب کا ناروے‘ کیوں کہتے ہیں؟
- ڈینیئل سٹیبلز
- بی بی سی ٹریول
شمالی عمان کے پہاڑوں اور سمندر کے بیچ ایک خاموش خلیج میں ایک چھوٹا سا کمزار نامی گاؤں چھپا ہوا ہے۔ یہ ملک کی شمال مشرقی سرحد ہے، لیکن کمزار کا ماحول باقی عمان سے بالکل الگ تھلگ ہے۔
درحقیقت، اسی شاندار تنہائی کی وجہ سے کمزار نے اپنی زبان اور ثقافت کو فروغ دیا ہے۔ یہ گاؤں اپنے قریبی شہر خاصاب سے سپیڈ بوٹ پر صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر یا پھر روایتی کشتی (ڈھو) پر ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
کمزار کے منفرد ہونے کی وجہ اس کا جغرافیہ بھی ہے۔ یہ گاؤں مسندم جزیرے پر ہے، جو کہ عمان کا ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے جسے متحدہ عرب امارات کے پتھریلے صحرا نے باقی عمان سے 100 کلومیٹر دور تک جدا کیا ہوا ہے۔
مسندم کو ’عرب کا ناروے‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ عرفیت اسے اس کے ڈرامائی ساحل کی وجہ سے ملی ہے جس کے ساتھ لمبی لمبی کھاڑیاں ہیں۔ اگرچہ اپنے سکینڈینیوائی ہم منصبوں کے برعکس، یہ پتھریلی کھاڑیاں گلیشیروں کے مستقل ٹوٹنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹیکٹونک پلیٹوں کے تصادم کی وجہ سے بنی ہیں، جو زمین کے پرت (کرسٹ) کو نیچے سے توڑتی ہیں جیسا کہ کوئی خوفناک مخلوق انڈے سے نکلنے کی کوشش میں ہو۔
یہ بھی پڑھیے
آبنائے ہرمز کے ایک سٹریٹجک پوائنٹ پر واقع کمزار نامی اس چھوٹے سے گاؤں تک صرف کشتی کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے
کمزار کی کھاڑیوں سے پرے آبنائے ہرمز ہے اور اس سے آگے ایران۔ تقریباً گذشتہ 700 سالوں سے، یہاں کے رہنے والے آبنائے ہرمز کے بہت سے اثرات کو اپنے اندر سمو رہے ہیں، جو کہ ایک طویل عرصے سے غیر ملکی تجارت، ثقافت اور جغرافیائی سیاسی ڈراموں کا محور ہے۔
اس کا عکس نمایاں طور پر کمزاری زبان میں ملتا ہے، جو کہ دوسری زبانوں سے یکسر مختلف ہے۔ کمزاری زبان اور ثقافت کا مطالعہ کرنے والے ایک مقامی مکییہ الکمزاری کہتے ہیں کہ ’کمزاری پرانی فارسی اور عربی اور دیگر زبانوں جیسے اکادیان، اسیریئن، ترک، انگریزی اور ہندی کا مرکب ہے۔ اور یہ یہاں کے علاوہ اور کہیں نہیں بولی جاتی۔‘
مقامی لوگوں کو اپنی زبان پر بہت ناز ہے۔ مویاد الکمزاری نے، جو مسندم کے آس پاس ڈھو (روایتی کشتی) چلاتے ہیں، مجھے بتایا کہ ’کمزاری ہماری مادری زبان ہے، اور جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو ہم کچھ اور نہیں بولتے۔ اگرچہ ہم سب عربی بولنا بھی جانتے ہیں۔‘
انگریزی بولنے والوں کو کمزاری زبان کے بہت سے الفاظ شاید جانے پہچانے لگیں گے۔ جیسے ستارہ ’سٹارگ‘ بن جاتا ہے، ’لوشن‘ لوسان اور ڈور (دروازہ) ’ڈار‘ بن جاتا ہے۔ نکلیس (ہار) کو ’نگلس‘ کہا جاتا ہے، اور ’پلینک‘ (تختی) ’پلِنگ‘ کہلاتی ہے۔ عربی اور فارسی سے لیے گئے بہت سے کمزاری الفاظ جدید عربی اور فارسی کی بجائے قرون وسطیٰ کے زمانے کے تلفظ سے زیادہ بولے جاتے ہیں۔
زبان پر اثرات کا یہ انفرادی آمیزہ اور اس کے ساتھ عربی کے ماحول میں اس کے بچے رہنے نے کرسٹینا وین ڈیر وال انونبی اور ایرک انونبی جیسے ماہر لسانیات کو کافی حیران کیا جو ایک سال تک کمزار میں رہے اور کام کیا۔
ایرک کہتے ہیں کہ ’کمزار صدیوں سے سماجی اور تاریخی طور پر متحرک علاقائی ماحولیاتی نظام کے مرکز رہا ہے، اور اگرچہ وہاں صرف کشتی کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے، یہ سوچنا غلط ہو گا کہ وہ تنہا ہے۔ کمزار تاریخی اعتبار سے بہت اہم تھا: بصرہ، مسقط، زانزیبار، انڈیا اور اس سے آگے کے تجارتی مراکز کے درمیان جگہوں میں سے ایک جہاں وافر مقدار میں تازہ پانی کا کنواں موجود تھا۔‘
کمزار پر مختلف قسم کے اثرات نے ایک منفرد زبان کو جنم دیا ہے
اس گاؤں نے انونبیس کا برادری کے اراکین کی طرح خیر مقدم کیا۔ انھوں نے اپنی لسانی تحقیق کے ساتھ ساتھ کمزاریوں کے روزانہ کے معمولات میں شرکت کی۔ کرسٹینا بتاتی ہیں کہ وہ صبح صبح مقامی خواتین کے ساتھ چھوٹے کپوں میں الائچی کی کافی پیتے ہوئے باتیں کیا کرتی تھیں، اور دوپہر کھجوروں اور مچھلیوں کی تیاری اور کھجور کے پتوں سے چیزیں بنانے میں گذر جاتی۔
ان کا خیال ہے کہ یہ مہمان نوازی کمزار کے منفرد مقام کی وجہ سے ہے۔ ’میرے خیال میں وہ اس قدر خوش آمدید کہنے والے اس لیے ہیں کیونکہ تاریخی طور پر وہ آبنائے ہرمز میں ڈوبنے والے بحری جہازوں کے ملاحوں کو باقاعدگی سے پناہ دیتے ہوں گے، اور جب وہ قزاقوں سے فرار ہوتے ہوں گے تو وہ کھاڑیوں میں جہازوں کو چھپاتے ہوں گے، یا پھر گذرتے ہوئے جہازوں کو کمزار کے کنووں سے تازہ پانی فراہم کرتے ہوں گے۔‘
کمزاریوں کا گزارہ مچھلی پر ہوتا ہے جو سال کے نو مہینوں تک اس کی ندیوں میں رہتی ہے، جب تیز گرمی کی وجہ سے مچھلیوں کے لیے پانی ختم ہو جاتا ہے تو وہ خصاب منتقل ہو جاتے ہیں جہاں وہ کھجوروں کی کاشت کاری کرتے ہیں۔ ایرک بتاتے ہیں کہ سمندر کمزار کو زندگی بخشتا ہے اور اس کے نتیجے میں سمندر ہی کی وجہ سے کمزاری زبان کو شکل ملتی ہے۔
کمزار کے جزیرہ نما مسندم کے منفرد ساحل کو ‘عرب کا ناروے’ بھی کہا جاتا ہے
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہمیں کمزاری میں مچھلی کی اقسام کے لیے 200 الگ الگ نام ملے ہیں، اور ان میں سے بہت سے الفاظ دنیا کی کسی دوسری زبان میں پائی جانے والی مچھلی کے ناموں سے بالکل مماثلت نہیں رکھتے۔‘
کمزار کے منفرد جغرافیے نے، جس میں تین طرف تو پہاڑی دیواریں ہیں اور ایک جانب سمندر ہے، نے نہ صرف اس کی زبان کو شکل دی ہے بلکہ اس تصور کو بھی کہ اس کے لوگ اپنے آس پاس کی دنیا کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ ایرک کہتے ہیں کہ (کومپاس) کی سمتیں شمال، جنوب، مشرق اور مغرب استعمال کرنے کی بجائے، جیسا کہ ہم انگریزی اور عربی میں کرتے ہیں، ان کی دنیا پہاڑوں کی طرف ’اوپر‘ اور سمندر کی طرف ’نیچے‘ ہے۔
سمندر کا اثر یہاں اتنا ہے کہ کہتے ہیں کہ یہاں بکریاں بھی مچھلی کھا جاتی ہے۔ جب خوشک زمین پر کچھ نہیں ملتا تو سارڈین ان کی غذائیت پوری کرتی ہے۔
مقامی لوک روایت میں سمندر کا بہت عمل دخل ہے۔ ڈھو کے عقبی حصوں پر کوئری (صدفی) کے لٹکے ہوئے شیلز (خولوں) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان بد روحوں کو بھگاتے ہیں جن کی وجہ سے ملاح جہاز ڈبو سکتے ہیں۔
کمزاری لوک کہانیاں بھی اکثر اوقات سمندر اور کمزار کے انوکھے مقام کے گرد گھومتی ہیں۔ ماکییا کہتی ہیں کہ ’مچھلی پکڑنے کے ایک طویل دن کے بعد، اب کچھ تفریح کا وقت ہے۔ گاؤں میں کہانیاں سننے اور سنانے کا بہت رواج ہے۔ کہانیاں زیادہ تر ماحول سے متاثر ہوتی ہیں، وہ سمندر اور اس کی مخلوقات کے بارے میں ہیں۔ اس کنویں کے بارے میں بھی کہانیاں ہیں جس نے کمزار کو ایک ایسا اہم مقام بنا دیا ہے جہاں مسافر پانی پینے اور بھرنے کے لیے رکتے ہیں۔‘
ایرک نے مزید کہا کہ کمزاریوں کی اپنی ایک روایتی گانوں اور لوک کہانیوں کی مکمل زبانی لائبریری ہے۔ ایلیکو شوبو جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے وہ ایک عظیم کمزاری کہانی سنانے والے تھے۔ ان کو لوک داستانوں کا ایک پورا مجموعہ زبانی یاد تھا جو کہ اتنا بھرپور اور تفصیل سے تھا جتنا ’ایک ہزار اور ایک راتیں‘ تھا لیکن وہ ہمیشہ اسے بڑے اپنے منفرد اور خوبصورت انداز سے سناتے تھے۔
کمزاری شادیوں کی تقریب سات دن چلتی ہے جس میں رقص و سرور اور شاہانہ دعوتیں ہوتی ہیں
کمزاری ثقافت کے دوسرے پہلو بھی اسی طرح متحرک ہیں۔ ایرک کے بقول ’عرب کے طول و عرض میں کمزاری لوگ اپنی زندگی سے بھرپور، رنگین، سات دن لمبی شادیوں کی وجہ سے مشہور ہیں جن میں دن رات رقص، روایتی گانے اور شاہانہ دعوتیں ہوتی ہیں جن میں تمام برادری شرکت کرتی ہے۔‘
کمزار چاہے ہر جگہ سے دور ہے، لیکن وہ بیک واٹر نہیں ہے یا یوں کہیں کہ وہاں جمود نہیں ہے۔ گاؤں خود کفیل ہے، اس کا اپنا سکول ہے، ہسپتال اور پانی کی صفائی ستھرائی کا پلانٹ ہے۔ مقامی لوگ اپنے آپ پر فخر کرتے ہیں اور یہ شاید اس کی بہتر عکاسی کمزار فٹ بال کلب سے زیادہ کہیں اور نہیں دیکھی جا سکتی جس نے حیرت انگیز طور پر 2016 میں عمان کے علاقائی کپ ٹورنامنٹ میں بہترین ٹیموں کو ہرایا تھا، جن کے پاس اس سے بہت زیادہ انسانی اور مالی وسائل تھے۔
مویاث کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے کلب کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی، اور تمام کمزاری لوگ اس لمحے پر فخر کرتے ہیں۔ اس نے یقیناً ہماری مقامی شناخت کے احساس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔‘
اگرچہ کمزار کا مستقبل واضح نہیں ہے۔ لیکن مویاث کہتے ہیں کہ ’کمزار بدل رہا ہے۔ نئی نسل تعلیم کی طرف بہت دھیان دے رہی ہے اور وہ اکثر اپنی تعلیم کے لیے مسقط چلے جاتے ہیں۔‘
وہ دن گذر گئے جب مقامی لوگ خصوصی طور پر کمزاری بولتے تھے اور عربی زبان سیکھنے کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اب نوجوان فارغ التحصیل ہونے کے بعد اکثر مین لینڈ عمان یا متحدہ عرب امارات میں ملازمت کی تلاش کرتے ہیں۔
ایرک کہتے ہیں کہ کمرشل فشنگ (تجارتی ماہی گیری) کی وجہ سے مچھلیوں کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے، اور کمزاری ماہی گیری کے عملے کی روٹی روزی کو خطرہ ہے۔
’عالمی تعلیم، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ کی وجہ سے عربی کمزاریوں کے دن کے ہر لمحے میں شامل ہو گئی ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے، اب زیادہ تر خاندان اپنے بچوں کو عربی کو مادری یا پہلی زبان کے طور پر سکھا رہے ہیں۔ بچے ابھی بھی کمزاری سمجھ سکتے ہیں لیکن وہ اسے اچھی طرح سے بول نہیں سکتے اور نسلوں کے درمیان زبان کا تبادلہ تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔‘
تاہم، ابھی بھی کچھ امید باقی ہے۔ مقامی ماہرین اور شائقین کا ایک گروہ کرسٹینا اور ایرک جیسے ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر کمزاری کا تحریری نظام قائم کرنے اور اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔
اگرچہ بہت سے کمزاری بڑے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں لیکن اب بھی لوگ اپنی مقامی ثقافت پر فخر کرتے ہیں
ایرک کہتے ہیں کہ ’شکر ہے کہ کمزاری افراد کا ایک مخصوص گروہ موجود ہے جو نہیں چاہتا کہ ان کی تمام تاریخ، ثقافتی علم، خطرناک ماحولیاتی مشکلات کے باوجود زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت، اور زبان کو زندہ رکھنے کی ان کی انوکھی کمزاری شناخت ختم ہو۔ کمزاری کو زندہ رکھنے سے وہ پوری دنیا کے ثقافتی ورثہ کو تقویت بخش رہے ہیں، کیونکہ کمزاری جیسی کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔‘
اگرچہ یونیورسٹی جانے کے لیے نوجوان یہاں سے منتقل ہو رہے ہیں، اس کے باوجود شرح پیدائش میں اضافے کا مطلب ہے کہ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ننھے کمزاروں کی کمی نہیں ہو گی۔ مویاث کہتے ہیں کہ ’آبادی بڑھ رہی ہے اور کمزار کے اوپر پہاڑوں میں نئے مکانات تعمیر ہو رہے ہیں۔‘
کمزاریوں کے مستقبل کے لیے ان کا مقامی فخر کا احساس بھی بہت اہم ہے۔ مویات کہتے ’ہم کمزاری ہمیشہ کہتے کہ کمزاریوں کو کبھی ڈر نہیں لگتا کیونکہ لڑنا ہماری روایت ہے، خواہ وہ فطرت کے خلاف ہو یا دوسرے دشمنوں کے خلاف۔ ہم سب کو کمزار ہونے پر فخر ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جدید چیلنجز کے ساتھ ساتھ ترقی کریں، لیکن ہم کبھی بھی اپنی ثقافت اور زبان کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔‘
Comments are closed.