عمان میں امام بارگاہ پر حملے میں چار پاکستانی اور ایک انڈین شہری ہلاک، حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کر لی
’لوگ فون پر مدد کے لیے رابطہ کر رہے تھے‘
عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی نے بی بی سی کے لیے صحافی یسریٰ جبین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امام بارگاہ علی بن ابو طالب دارالحکومت مسقط کے نواحی علاقے الوادی الکبیر میں واقع ہے جہاں پاکستانی شہریوں کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری بھی جاتے ہیں۔
پاکستانی سفیر عمران علی کے مطابق ’یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کے وقت اس امام بارگاہ میں 300 سے 400 لوگ موجود تھے جن میں بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین بھی شامل تھیں۔‘عمران علی نے بتایا کہ سوموار کی رات تقریبا 11 بجے حملہ ہوا۔،تصویر کا ذریعہPakistan Embassy Oman
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عمانی حکام کا کیا کہنا ہے؟
ادھر عمان کی حکومت اور حکام کی جانب سے ابھی تک اس حملے کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔عمان پولیس کی جانب سے ایک مختصر بیان میں بتایا گیا کہ ’الوادی الکبیر میں فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے کارروائی کی جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق چار افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔‘عمان کی پولیس کے بیان میں بتایا گیا کہ ’اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے اور شواہد اکھٹا کرنے اور تفتیش کا عمل جاری ہے۔‘پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔عمان میں اس طرح کا پرتشدد واقعہ پیش آنا حیران کن ہے کیوں کہ مشرق وسطی کی یہ ریاست خطے میں کافی مستحکم اور محفوظ سمجھی جاتی ہے۔اسی وجہ سے عمان نے خطے میں جاری تنازعوں میں مصالحت کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔عمان کی مجموعی آبادی تقریبا 46 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 40 فیصد غیر ملکی ہیں۔ تاہم عمان کی حکومت آبادی کے مذہبی اعداد و شمار شائع نہیں کرتی۔امریکی محکمہ خارجہ کے تخمینوں کے مطابق عمان کی آبادی میں 95 فیصد مسلمان ہیں جن میں سے 45 فیصد سنی جبکہ پانچ فیصد شیعہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.