الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے خلاف ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
دورانِ سماعت وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے وکیل اشرف گجر نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ انکوائری باضابطہ نہیں کی گئی، اس حوالے سے تحقیقات نہیں ہیں، شکایت بھی موجود نہیں ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کے کلائنٹ نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کی؟
علی امین گنڈاپور کے وکیل نے جواب دیا کہ سیاسی کارکن خوشی، غمی میں جاتے ہیں، لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، لوگ ان سے اپنے کام کہتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سیاسی کارکن سے وفاقی وزیر بننے تک آپ کی ذمے داری بڑھتی ہے، ضابطۂ اخلاق تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنتا ہے، صرف الیکشن کمیشن نے نہیں بنایا۔
علی امین گنڈاپور کے وکیل نے کہا کہ آپ نے اپنی سروس میں ایسے نوٹس اور آرڈر نہیں دیکھے ہوں گے، جو بالکل مبہم ہوں، اس آرڈر اور نوٹس میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ کارروائی ختم کی جائے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ مؤکل کی جانب سے آئندہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، برابری کے مواقع دیے جائیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج ہی علی کریم کنڈی کا کیس بھی لگا ہوا ہے۔
علی امین گنڈاپور کے وکیل اشرف گجر نے کہا کہ جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ سینیٹر ہیں، درخوست جے یو آئی (ف) کی سمجھی جائے یا ان کی، کامران مرتضیٰ کا ڈی آئی خان سے تعلق نہیں، کامران مرتضیٰ بلوچستان سے ہیں، وہ کیسے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے درخواست دائر کر رہے ہیں، وہ متاثرہ فریق نہیں ہیں، ان کے لیڈر مولانا فضل الرحمٰن ڈی آئی خان سے الیکشن ہار گئے تھے، میرے مؤکل نے مہم چلائی تھی جس میں مولانا فضل الرحمٰن کو شکست ہوئی، یہ درخوست بدنیتی پر کی گئی ہے، اسے خارج کیا جائے۔
علی امین گنڈا پور نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی کہ لکھ کر دیتا ہوں کہ آئندہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، مجھے ضلع بدر نہ کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور کہا کہ علی امین گنڈا پور کے خلاف ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کے کیس کا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
Comments are closed.