بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

علی النمر: سعودی عرب میں سزائے موت کے منتظر نوجوان کی جیل سے رہائی

علی النمر: سعودی عرب میں سزائے موت کے منتظر نوجوان کی جیل سے رہائی

علی النمر

،تصویر کا ذریعہJa’afar B Al Nemer

،تصویر کا کیپشن

علی النمر کے خاندان نے ان کی جیل سے رہائی کے بعد یہ تصویر جاری کی ہے

سعودی عرب کے حکام نے ایک نوجوان علی النمر کو رہا کر دیا ہے جنھیں کچھ عرصہ قبل ایک سعودی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔

علی النمر کو 2012 میں اہلِ تشیع برادری کے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت اُن کی عمر 17 برس تھی۔

سعودی عرب کی ایک عدالت نے علی النمر کو عوامی مقام پر سرقلم کیے جانے کی سزا سنائی تھی۔ سعودی عدالت کے فیصلے کے خلاف دنیا بھر میں آواز بلند ہوئی تھی۔

علی النمر شیعہ رہنما شیخ باقر النمر کے بھتیجے ہیں جنھیں 2016 میں قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔

علی النمر گرفتاری کے بعد سے اب تک تقریباً 10 سال جیل میں رہے ہیں۔

سعودی عرب کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

جب سعودی عرب کے پاس جی 20 ممالک کی صدارت تھی، اس دوران جنوری سے جولائی تک 40 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

1px transparent line

شیخ باقر النمر کو سعودی عرب کے شمالی صوبے میں 2011 میں عرب بہار سے متاثر احتجاج کا بڑا حامی تصور کیا جاتا تھا۔ صوبے میں احتجاج کی رہنمائی مقامی شیعہ علما کر رہے تھے جو ایک عرصے سے سعودی عرب کی سنی بادشاہت کے ناروا سلوک کی شکایات کرتے رہے ہیں۔

علی النمر کو فروری 2012 میں ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں بعد میں ’حکمران کی نافرمانی‘، ریاست کے خلاف نعرے بلند کرنے اور پولیس پر حملہ کرنے کے جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔

علی النمر نے الزامات کی تردید کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ پولیس نے ان سے تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کروایا ہے۔ اسی عدالت میں دو دیگر نوجوانوں، عبداللہ الظاہر اور داؤد المارہون جن کی عمریں بالترتیب 15 اور 17 برس تھیں، نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان سے بھی تشدد کے ذریعے اعترافی بیان پر دستخط کروائے گئے تھے۔

عدالت نے ان تینوں نوجوانوں کو موت کی سزا کا حکم جاری کیا تھا۔

نوجوانوں کے خاندانوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے رحم کی اپیلوں کے باوجود ان تینوں نوجوانوں کو موت کی سزا کو برقرار رکھا گیا تھا۔

باقر النمر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رواں برس کے اوائل میں سعودی کمیشن برائے انسانی حقوق نے تینوں نوجوانوں کی موت کی سزا کو 10 برس قید میں بدلنے کا اعلان کیا تھا۔

کمیشن نے ان نوجوانوں کی سزاؤں کو کم کرنے کے حکم میں 2018 کے ایک قانون کا حوالہ دیا تھا جس کے تحت کچھ جرائم میں نوعمر مجرموں کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

علی النمر کو بدھ کے روز جیل سے رہا کر دیا گیا ہے البتہ عبداللہ الظاہر اور داؤد المرہون ابھی تک جیل میں ہی ہیں۔

سزائے موت کے خاتمے کے لیے کوشاں فلاحی ادارے ’ریپریو‘ کی ڈائریکٹر مایا فوا نے علی النمر کی رہائی کو حالات میں ’بہتری کی واضح نشانی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں اب بھی لوگوں کو بچپن کے جرائم پر سزائے موت دی جاتی ہے۔

رواں برس جون میں ایک اور شخص مصطفیٰ الدرویش کو سزائے موت دی گئی حالانکہ گرفتاری کے وقت اس کی عمر 17 برس تھی۔ مصطفیٰ الدرویش نے عدالت کو بتایا تھا کہ تشدد کے ذریعے ان سے اعترافی بیان پر دستخط کروائے گئے ہیں۔

اسی طرح 19 سالہ عبداللہ الہواتی جنھیں جیولری چوری کرنے اور ایک پولیس افسر پر فائرنگ کے الزام میں اس وقت گرفتار گیا تھا جب ان کی عمر 14 برس تھی، اُنھیں بھی سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

اب وہ موت کی سزا پانے والے مجرموں کی قطار میں ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.