دنیا کے عظیم سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن 18 اپریل 1955 میں امریکی ریاست نیوجرسی کے پرنسٹن اسپتال میں وفات پا گئے تھے۔ وہ دن، ایک عظیم سائنسدان کی زندگی کا تو آخری دن تھا، لیکن اسی دن سے البرٹ آئنسٹائن کے دماغ کا طویل اور عجیب سفر کا آغاز ہوا تھا کیونکہ موت کے بعد البرٹ آئن اسٹائن کا دماغ چوری ہوگیا تھا۔
آئن اسٹائن کی موت کے16 برس بعد ایک جگہ اس دماغ کے ایک ٹکڑے کو دیکھا گیا، جس نے دنیا بدل دی ، دماغ کا وہ ٹکڑا فِلا ڈیلفیا کے ایک میوزیم میں دیکھا گیا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ البرٹ آئن اسٹائن کا دماغ کس نے اور کیوں چوری کیا؟ اور وہ دماغ فِلا ڈیلفیا کے اُس میوزیم تک کیسے پہنچا۔
کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر تھامس ہاروے نے آئن اسٹائن کا دماغ نکالا اور اپنے ساتھ لے گئے، ڈاکٹر تھامس ہاروے اسی اسپتال میں ڈاکٹر تھے جہاں آئن اسٹائن کا انتقال ہوا تھا۔ انہوں نے وہ دماغ 40 سال تک اپنے پاس رکھا، ڈاکٹر تھامس ہاروے اس دماغ پر ریسرچ کرکے یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے، جس نے البرٹ آئن اسٹائن کو عقلمند بنایا۔
ڈاکٹر تھامس ہاروے آئن اسٹائن کے خاندان کی اجازت کے بغیر ان کا دماغ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اسی حرکت کی وجہ سے انہیں نوکری سے بھی نکال دیا گیا تھا لیکن اسپتال انتظامیہ کی درخواست کے باوجود انہوں نے آئن اسٹائن کا دماغ واپس کرنے سے انکار کردیا۔
20سال بعد آئن اسٹائن کے بیٹے ہانس پرنس البرٹ سے اجازت ملنے پر ڈاکٹر تھامس ہاروے نے دماغ کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر انہوں نے آئن اسٹائن کےدماغ کو کاٹ کر اس کے 170 ٹکڑے کردیے ، وہ تمام ٹکڑے ریسرچ کے لیے ہر جگہ بھیج دیے۔
نومبر 2011 میں ڈاکٹر لکی رارک ایڈمس مذکورہ مُٹر میوزیم کی انتظامیہ کو فون کال کرتے ہیں، وہ انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں ایک نیورو پیتھالاجسٹ سے ایک باکس ملا ہے، جو ہاروے نے کسی اور نیورو پیتھالاجسٹ کو بھیجا تھا۔
ڈاکٹر رارک ایڈمس نے دماغ کے اس ٹکڑے کو میوزیم میں نمائش کے لیے رکھنے کو کہا، اس کے بعد سے دنیا کے عظیم سائنسدان کے دماغ کا ایک ٹکڑا اسی میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔
فِلا ڈیلفیا کے اس میوزیم کو امریکا کا سب سے دلچسپ میڈیکل میوزیم مانا جاتا ہے۔ جہاں میڈیکل کے شعبے سے جڑی کئی چیزیں رکھی گئی ہیں۔
Comments are closed.