عظیم رفیق کیس: یارکشائر کے سابق کھلاڑی کے ساتھ مبینہ نسل پرستی پر مائیکل وان کی معافی
سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے کہا ہے کہ وہ عظیم رفیق کو ’پہنچنے والی تکلیف پر‘ معافی مانگتے ہیں۔
عظیم رفیق نے برطانیہ کے کرکٹ کلب یارکشائر میں سنہ 2008 سے 2014 اور پھر 2016 سے 2018 کے دوران کرکٹ کھیلنے کے عرصے میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بورڈ نے اندرونی تفتیش کے بعد ان کے الزامات کو رد کر دیا تھا۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو نے جب اس رپورٹ کا ذکر اپنی ایک خبر میں کیا تو اس کے بعد سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر یہ بات زیر بحث آئی اور کرکٹرز سے لے کر برطانوی سیاستدانوں تک نے اس پر اپنی رائے دینا شروع کر دی۔
اس کے بعد یارکشائر کرکٹ کلب کے چیئرمین راجر ہٹن نے کلب کی جانب سے سابق کھلاڑی عظیم رفیق کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی رویے کے الزامات کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔
ساتھ ہی عظیم رفیق کو کھیلوں کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مزید شواہد دینے کے لیے پیش ہونے کا بھی کہا گیا۔ اس دوران رپورٹ میں عظیم رفیق نے جن لوگوں پر الزامات لگائے تھے ان میں مائیکل وان کا نام بھی سامنے آیا۔
رفیق کے مطابق وان نے ایشین نژاد کھلاڑیوں پر نسل پرستانہ جملہ کسا تھا۔
حال ہی میں بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وان اس بات پر قائم ہیں کہ انھوں نے یارکشائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے اس طرح کی کوئی گفتگو نہیں کی تھی لیکن انھوں نے ماضی میں کی گئی ٹویٹس کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا۔
’مجھے اس سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ ایک کھلاڑی کو ان ساری چیزوں سے گزرنا پڑا اور اتنا کچھ سہنا پڑا، وہ بھی اس کلب میں جس سے مجھے پیار ہے۔ مجھے ایک طریقے سے اس کی کچھ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ میں 18 سال تک یارکشائر کرکٹ کلب کے ساتھ وابستہ رہا۔ اگر میں اس تکلیف کا کسی بھی طریقے سے ذمہ دار ہوں تو میں معافی مانگتا ہوں۔‘
عظیم رفیق یارکشائر کلب کی طرف سے 2008 اور 2018 کے درمیان کھیلتے رہے ہیں اور انھوں نے 2012 میں کاؤنٹی کی کپتانی بھی کی تھی
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کسی بھی قسم کی نسل پرستانہ گفتگو کی تھی تو ان کا جواب تھا ’نہیں۔ میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔‘
مائیکل وان انگلش ٹیسٹ ٹیم کے 2003 سے لے کر 2008 تک کپتان رہے۔ انھوں نے 1993 اور 2008 کے دوران کھیلے گئے اپنے پورے ڈومیسٹک کرکٹ کیریئر میں یارکشائر کی نمائندگی کی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بی بی سی ٹیسٹ میچ سپیشل ٹیم کے ساتھ کام کرتے رہے لیکن اب وہ بی بی سی کی ایشز سیریز کی کوریج کا حصہ نہیں ہوں گے۔
بی بی سی بریکفاسٹ شو کے ڈین واکر کے ساتھ بات کرتے ہوئے وان نے کہا: ’نسل پرستی کرکٹ میں ایک مسئلہ ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے کبھی بھی ڈریسنگ روم میں نسل پرستانہ گفتگو نہیں سنی لیکن ایسی چیزیں ضرور سنی ہیں جو کہ آج کے دور میں قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔‘
’مجھے رفیق کے ساتھ مل کر یارکشائر کلب کو اس سارے معاملے سے نکلنے میں اور آگے بڑھنے میں مدد کرنے پر خوشی ہو گی۔ انھیں امید ہے کہ اگلے برس وہ بی بی سی کے لیے دوبارہ کمنٹری کریں گے۔‘
نسل پرستی کے واقعے کا مبینہ الزام
عظیم رفیق نے الزام لگایا تھا کہ مائیکل وان نے انھیں اور تین دوسرے ایشین نژاد کھلاڑیوں سے کہا تھا کہ ’تم لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو گئے ہو۔ ہمیں اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔‘
ان کے الزامات کی تصدیق سابق پاکستانی بالر رانا نوید الحسن اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے لیگ سپنر عادل رشید نے کی جن کے مطابق انھوں نے وان کو یہ جملہ کہتے ہوئے سنا تھا۔
چوتھے کھلاڑی اور بولر اجمل شہزاد نے برطانوی جریدے ڈیلی میل سے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور تمام سینیئر کھلاڑیوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا۔
وان، جنھوں نے اس واقعے کی تحقیقات میں حصہ نہیں لیا تھا، کہتے ہیں کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور نہ ہی انھیں ان الفاظ کا علم ہے، جس کا ان پر استعمال کرنے کا الزام ہے۔
’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اس بات پر بہت فخر تھا کہ ہمارے پاس چار ایسے ایشین نژاد کھلاڑی ہیں جو کہ یارکشائر کرکٹ کلب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں اس وقت ایک سینیئر پروفیشنل کھلاڑی تھا جو فخر اور خوشی سے ریٹائر ہو رہا تھا کہ یارکشائر میرے وقت میں کتنا آگے آ گیا ہے۔‘
کھیلوں کی پارلیمانی امور کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے رفیق نے کہا تھا کہ مائیکل وان کو شاید یہ واقعہ یاد نہ ہو کیونکہ ان کے لیے یہ بڑی بات نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے
وان کہتے ہیں ’مجھے اس سے اس لیے تکلیف ہوئی کیونکہ میں جس ٹیم کے ساتھ بھی رہا ہوں، چاہے پھر وہ چھ برس تک انگلینڈ کی کپتانی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں نے ہمیشہ میری سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خاصیت کی تعریف کی۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ ڈریسنگ روم کے اندر میں وہ شخص تھا جو سب کو شمولیت کا احساس دلاتا رہتا۔‘
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا عظیم رفیق، رشید اور نوید جھوٹ بول رہے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ ’اس صورتحال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت ساری معلومات ہے۔ اس نے یہ کہا، اس نے وہ کہا، کس نے کیا کہا۔ میرے خیال میں ہمیں ماضی کے ان الزامات کی بحث سے نکلنے کی اور توجہ طلب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
مائیکل وان پرانی ٹویٹس پر شرمندہ
مائیکل وان کی جانب سے ماضی میں کی گئی کچھ ٹویٹس آج کل سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ سنہ 2010 میں انھوں نے کہا تھا کہ لندن میں اب بہت زیادہ انگریز نہیں رہتے اور انھیں اب نئی زبان سیکھنی پڑے گی جبکہ سنہ 2017 میں انھوں نے مانچسٹر ارینا میں شدت پسند حملے کے بعد اس سوال کے جواب میں ہاں کہا تھا جس میں یہ پوچھا گیا کہ کیا انگلش کرکٹر معین علی کو تمام مسلمانوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا وہ شدت پسند ہیں یا نہیں۔
وان کہتے ہیں کہ انھیں ان ٹویٹس پر شرمندگی ہے اور وہ اب ایک مختلف انسان ہیں۔ ’ان ٹویٹس کی وجہ سے میں نے جن لوگوں کو تکلیف پنچائی، ان سے میں تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے اور مجھے ان ٹویٹس پر افسوس ہے۔ ہم سب زندگی میں غلطیاں کرتے ہیں اور میں نے بھی ٹوئٹر پر کچھ غلطیاں کی ہیں۔ میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔‘
ڈین واکر نے سوال کیا کہ ’کیا آپ جب یہ ٹویٹس دوبارہ پڑھتے ہیں تو آپ کو شرمندگی ہوتی ہے؟
وان: جی ہاں۔
واکر: اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ اب ایک مختلف انسان ہیں؟
وان: بالکل۔
یارکشائر کے کھلاڑیوں پر انڈین بیٹسمین چھتیشور پجارا کو ‘سٹیو‘ کا نام دینے پر بھی تنقید ہوئی ہے۔ یہ بات مائیکل وان نے کمنٹری کے دوران سنہ 2018 میں کہی تھی۔
’یارکشائر میں انھیں سٹیو کے نام سے بلایا جاتا ہے کیونکہ وہاں پر لوگ ان کے اصل نام کا تلفظ نہیں کر پاتے۔‘
لیکن وان کہتے ہیں کہ حالات اب بدل گئے ہیں۔
’یہ تین برس پہلے کی بات ہے۔ وقت اتنا زیادہ تبدیل ہو گیا ہے۔ صرف تین سال پہلے ایسا تھا۔ اگر آپ 12، 15 یا پھر 20 برس کی بات کریں تو ایسے میں چیزیں تیزی سے بدل رہی ہوتی ہیں۔ اب ہم اس نہج پر ہیں کہ یہ چیزیں صرف کرکٹ کے ڈریسنگ روم تک محدود نہیں، یہ تمام کھیلوں کے ڈریسنگ رومز تک پہنچ گئی ہیں۔ اب ہر کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔‘
’میں نے ایسی گفتگو سنی جو کہ اب قابلِ قبول نہیں‘
عظیم رفیق کے الزامات کے بعد تحقیقاتی رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ نسل پرستانہ رویے کا نشانہ بنے اور انھیں ہراساں بھی کیا گیا۔
عظیم رفیق نے برطانوی پارلیمان کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور سپورٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ انگلش کرکٹ میں ’ادارے کی سطح پر‘ نسل پرستی موجود ہے۔
30 سالہ عظیم رفیق نے یہ بھی بتایا کہ ان کے یارکشائر کلب کے دور میں نسل پرستانہ جملوں کا باقاعدہ استعمال ہوتا تھا۔ بشمول وہ اصطلاحات جو ان کے اور پاکستانی تعلق رکھنے والے دوسرے افراد کو نشانہ بناتیں، ان کے یارکشائر کے دور میں ’مسلسل‘ استعمال کی جاتیں اور اس رویے کا ’کبھی خاتمہ نہیں کیا گیا۔‘
مائیکل وان عظیم رفیق کے دوسرے سیزن کے دوران یارکشائر کلب سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی ڈریسنگ روم میں نسل پرستانہ گفتگو نہیں سنی۔
’میں نے بطور کھلاڑی اپنے 18 سال کے کیریئر میں ایسی کئی چیزیں سنی ہیں جو کہ آج کے وقت میں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اگر میں کسی بھی ایسے کھلاڑی کی بات کروں جو کہ اس دور سے ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ انھوں نے اس قسم کی گفتگو نہیں سنی۔ تو میں یہ کہوں گا کہ وہ سچ نہیں بتا رہے۔‘
’ماضی میں ایسی کئی چیزیں تھیں جو کہ آج کے دور میں قابلِ قبول نہیں۔ اگر میں کسی ایسے ڈریسنگ روم کا حصہ تھا جس میں لوگوں کو اس طرح کے جذبات محسوس کروائے گئے تو اس کے لیے میں معافی مانگ سکتا ہوں۔‘
وان نے مزید کہا کہ وہ ان لوگوں کے لیے خوش ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔
وان اور ان کی بی بی سی کے ساتھ وابستی
گذشتہ ہفتے بی بی سی نے اعلان کیا تھا کہ وان بی بی سی کی ایشز سیریز کی کوریج کا حصہ نہیں ہوں گے۔ ایک بیان میں بی بی سی نے کہا کہ کرکٹ کی کہانی میں وان کا کردار بہت اہم ہے ’لیکن اداراتی وجوہات کی بنا پر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ وان کو اس کوریج میں شامل کیا جائے۔‘
مائیکل وان کہتے ہیں کہ وہ بی بی سی کے فیصلے کو سمجھتے ہیں اور ان کی ادارے کے ساتھ ان کے مستقبل کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔
’میں امید کر سکتا ہوں کہ وقت کے ساتھ مجھے واپس آنے کا موقع ملے گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے جس چیز سے سب سے زیادہ پیار ہے وہ ہے کرکٹ کے بارے میں بات کرنا۔ امید ہے کہ اگلے برس میں ٹیم کے ساتھ دوبارہ کام کروں گا۔ مجھے ٹیسٹ میچ سپیشل (ٹی ایم ایس) پر آنا بہت اچھا لگتا ہے اور موقع ملنے پر میں دوبارہ بھی آوں گا۔‘
Comments are closed.