’عظیم جھیلوں کا ٹائٹینک‘: وہ بحری جہاز جس کے پُراسرار اور اچانک ڈوبنے نے دوسرے جہازوں کو زندگی دی
،تصویر کا ذریعہUnited States Army Corps of Engineers
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
ڈوبا وہ اچانک تھا۔ نہ مدد کے لیے کوئی پکار نہ کوئی اشارہ۔
تحقیقات کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ایڈمنڈ فٹزجیرلڈ نے آخری گھنٹے میں 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہواؤں اور 25 فٹ سے اونچی لہروں کا مقابلہ کیا اور ہو سکتا ہے کہ اسے ان لہروں سے بھی بلند ’دی تھری سسٹرز‘ نامی تین بلند لہروں کے تھپیڑے بھی پڑے ہوں گے۔
لیکن 24 ستمبر 1958 کو اپنا پہلا سفر کرنے والا یہ مال بردار جہاز شمالی امریکہ کی گریٹ لیکس کو سترہ سال سے جانتا تھا۔
729 فٹ (222 میٹر) لمبا اور 13,600 ٹن وزنی، یہ جہاز تب ان جھیلوں میں چلنے والا سب سے بڑا تھا اور اسی لیے ’دی بگ فٹز‘ یا ’مائٹی فٹز‘ کہلاتا تھا۔ ہاں اسے ایک نام ’عظیم جھیلوں کا ٹائٹینک‘ بھی دیا گیا تھا۔
یہ جہاز عام طور پر ٹیکونائٹ خام لوہا ڈولتھ، منیسوٹا کے قریب کانوں سے ڈیٹرائٹ، مشی گن، ٹولیڈو، اوہائیو، اور دیگر مقامات پر لوہے کے کارخانوں تک لے کر جاتا تھا۔
مارک ٹامسن اپنی کتاب ’کوئین آف دی لیکس‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ جہاز اکثر اپنا ہی ریکارڈ توڑتے ہوئے موسمی سفر کا ریکارڈ چھ بار قائم کر چکا تھا۔
’کیپٹن پیٹر پلسر انٹرکام پر جہاز کے بارے میں بتاتے ہوئے دن رات موسیقی بجانے اور شائقین کو تفریح فراہم کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ جہاز کے حجم، کارکردگی اور ’ڈی جے کیپٹن‘ نے ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ کو جہازوں کے شوقین افراد کی نظر میں پسندیدہ بنا دیا تھا۔‘
’مال برادر جہاز کے معیار کے لحاظ سے، فٹزجیرالڈ کا اندرونی حصہ پُرتعیش تھا۔ دبیز قالین، ٹائل شدہ باتھ روم، پردے اور مہمانوں کے لاؤنج میں چمڑے کی کرسیاں۔ اس میں مسافروں کے لیے دو مہمان خانے تھے۔ ایئر کنڈیشنگ کو عملے کے کوارٹرز تک بڑھا دیا گیا تھا، جن میں معمول سے زیادہ سہولیات موجود تھیں۔‘
اس جہاز کے مسافر کمپنی کے مہمانوں کے طور پر جہاز پر سفر کرتے۔
فریڈرک سٹون ہاؤس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’مہمانوں کے ساتھ وی آئی پی افراد جیسا سلوک ہوتا۔ کھانا بہترین ہوتا اور لاؤنج میں سنیکس ہمیشہ دستیاب رہتے۔ ایک چھوٹے لیکن بھرپور باورچی خانے سے مشروبات فراہم کیے جاتے۔ ہر سفر کے بعد، کپتان مہمانوں کے لیے کینڈل لائٹ ڈنر کا اہتمام کرتے۔‘
سنہ 1969 میں ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ کو مسلسل آٹھ سال محفوظ سفر پر سیفٹی ایوارڈ ملا۔ اگلے دو، تین سالوں میں چند چھوٹے حادثوں کے بعد 1974 میں یہ جہاز ڈیٹرائٹ دریا میں اپنا اصل لنگر کھو بیٹھا۔ ان میں سے کسی بھی حادثے کو سنگین یا غیر معمولی نہیں سمجھا گیا۔
جوزف مکنیس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’نومبر 1975 تک، ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ گریٹ لیکس میں ایک اندازے کے مطابق 748 چکر لگاتے ہوئے دس لاکھ میل سے زائد کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ یہ فاصلہ دنیا بھر کے تقریباً 44 چکروں کے برابر ہے۔‘
مائیکل شوماخر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میٹھے پانی کے جہاز نصف صدی سے زیادہ چلنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، اور فٹزجیرالڈ کی بہت عمر باقی تھی۔
،تصویر کا ذریعہS.S. Edmund Fitzgerald Online
آخری سفر
نو نومبر 1975 کو ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ شمال مغربی امریکی ریاست وسکونسن کے شہر سپیریئر سے جنوب مشرقی ریاست مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ کے قریب ایک سٹیل مل کے لیے روانہ ہوا۔
اس سفر پر جہاز کی قیادت ارنسٹ ایم میک سورلی کر رہے تھے اور اس پر 28 دیگر لوگ سوار تھے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا سے منسلک ایمی ٹکانن لکھتی ہیں کہ ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ نے جلد ہی تقریباً 15 میل (24 کلومیٹر) پیچھے جہاز آرتھر ایم اینڈرسن سے ریڈیو رابطہ کیا۔
’اس کے بعد 9 نومبر ہی کو، نومبر میں شدید طوفانوں کے لیے مشہور جھیل سپیریئر کے لیے طوفان کی تنبیہ جاری کی گئی۔ اگلے روز صبح سویرے شدید تر طوفان کی وارننگ جاری ہونے پر دونوں جہازوں نے راستہ بدلنے پر اتفاق کیا، اور زیادہ شمالی راستہ اختیار کیا جو عام طور پر شدید موسم میں استعمال کیا جاتا تھا۔‘
’تاہم ہواؤں کا رُخ ایسا بدلا کہ جہاز طوفان کے مرکز کی جانب جانے لگے۔ جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، طوفان بدتر ہوتا گیا۔ ہوائیں 70-75 ناٹ فی میل کی رفتار تک پہنچ گئیں اور لہریں 25 فٹ (8 میٹر) بلند ہو گئیں۔ یہاں تک کہ میک سورلی نے کہا کہ انھیں اب تک کے ’بدترین طوفانوں‘ میں سے ایک کا سامنا تھا۔‘
دس نومبر کی سہ پہر 3:15 کے قریب، اینڈرسن کے کپتان نے فٹزجیرالڈ کو خطرناک حد تک کیریبو جزیرے کے قریب سے گزرتے دیکھا۔
،تصویر کا ذریعہUnited States Coast Guard
لگ بھگ 15 منٹ بعد، فٹزجیرالڈ نے اینڈرسن کو اطلاع دی کہ اسے معمولی نقصان پہنچا ہے اور وہ لسٹ (ایک جانب جھکاؤ) کر رہا ہے، حالانکہ اس نے اپنے پمپ آن کر دیے تھے۔
میک سورلی نے رفتار کم کرتے اینڈرسن کو فٹزجیرالڈ کے قریب رہنے کو بھی کہا۔
تقریباً 4:10 پر، فٹزجیرالڈ نے اینڈرسن کو بتایا کہ اس کے دونوں ریڈار نیچے ہیں اور اس نے رہنمائی کی درخواست کی۔
ایک گھنٹے بعد فٹزجیرالڈ نے ایک اور جہاز ایوافورس کو اطلاع دی کہ وہ بُری طرح سے لِسٹ کر رہا ہے۔
شام 7:10 بجے فٹزجیرالڈ نے اینڈرسن سے دوبارہ بات کی۔ اس وقت میک سورلی نے کہا کہ ’ہم خیریت سے ہیں، پرانے جوتے کی طرح پانی کے ساتھ ساتھ بہتے جا رہے ہیں۔‘
مارک برش نے 2015 میں اپنے ریڈیو پروگرام ’ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ کے ڈوبنے کی رات‘ میں یہ گفتگو سنوائی۔
ان کا کہنا تھا کہ مگر یہ فٹزجیرالڈ کے آخری الفاظ تھے۔
کچھ 10 منٹ بعد فٹزجیرالڈ اینڈرسن کے ریڈار سے غائب ہو گیا۔
فٹزجیرالڈ اچانک کینیڈا کے پانیوں میں 530 فٹ (160 میٹر) گہرائی میں ڈوب گیا۔ وائٹ فش بے میں اونٹاریو، کینیڈا اور مشیگن، امریکہ کی مشترکہ پناہ گاہ سے 20 میل (32 کلومیٹر) سے بھی کم فاصلے پر جو وہ صرف ایک گھنٹے میں طے کر سکتا تھا۔
فٹزجیرالڈ کے ڈوبنے کی وجہ کا حتمی تعین نہیں ہو پایا گو مختلف مفروضات ضرور پائے جاتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ حادثہ بہت تیزی سے ہوا تھا۔
24 ملین ڈالرکی مالیت کے ساتھ، ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ کا مالی نقصان گریٹ لیکس کی کشتی رانی کی تاریخ میں سب سے بڑا تھا۔
عملے کے علاوہ، 26,116 ٹن ٹیکونائٹ جہاز کے ساتھ ڈوبا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGreat Lakes Shipwreck Historical Society
’سپیرئر جھیل اپنے مردے کبھی واپس نہیں کرتی‘
عملے کے ارکان کے اہل خانہ کی طرف سے دائر کردہ مقدمات کے بعد تحقیقات کے ختم ہونے سے پہلے ہی مالکان نارتھ ویسٹرن میوچل اور آپریٹرز اوگلبے نورٹن کارپوریشن نے انھیں آٹھ لاکھ ڈالر سے زائد معاوضہ ادا کر دیا۔
جہاز کی 200 پاؤنڈ وزنی گھنٹی 4 جولائی 1995 کو برآمد ہونے کے بعد وائٹ فش پوائنٹ پر واقع گریٹ لیکس شپ ریک میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
شوماخر اور سٹون ہاؤس لکھتے ہیں کہ ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ کے تاثر اور تاریخی بیانیے کی شہرت نے اس واقعے کے ’گراؤنڈ زیرو‘، مینیسوٹا سے وائٹ فش پوائنٹ تک، میں ایک قسم کی ’کاٹج انڈسٹری‘ کو جنم دیا ہے۔
یہاں جہاز سے منسلک زیورات، ٹی شرٹس، کافی مگ اور برتن اس نقصان کی یاد میں فروخت ہوتے ہیں۔
اونٹاریو کے گلوکار و گیت نگار گورڈن لائٹ فوٹ نے اپنے 1976 کے البم ’سمر ٹائم ڈریم‘ کے لیے گانا ’دی ریک آف دی ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ‘ لکھا، کمپوز کیا اور ریکارڈ کیا۔
لائٹ فوٹ کا گایا گیت اس علاقے میں ترانے کی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کی ایک لائن ہے کہ ’سپیرئر جھیل اپنے مردے کبھی واپس نہیں کرتی۔‘
یہ اس جانب اشارہ ہے کہ عملے کے 29 ارکان میں سے کسی کی بھی لاش برآمد نہیں ہوئی۔
گمشدہ عملے کے اہلخانہ نے ایس ایس ایڈمنڈ فٹزجیرالڈ آن لائن نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ لائٹ فوٹ اکثر جہاز اور عملے کے ارکان کے لیے دعائیہ تقریبات میں شرکت کرتے۔
اس سال مئی میں ڈیٹرائٹ کے میرینرز چرچ میں 30 بار گھنٹی بجائی گئی۔ 29 بار فٹزجیرالڈ کے عملے کی یاد میں، اور 30ویں بار لائٹ فٹ کی یاد میں، جو یکم مئی 2023 کو 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔
مارک ٹامسن لکھتے ہیں کہ 1816 میں ’انونسبل‘ کے کھونے اور 1975 میں اس حادثے کے درمیانی سالوں میں اس علاقے میں کم از کم 240 جہاز ڈوب چکے تھے لیکن فٹزجیرالڈ یہاں ڈوبنے والا سب سے بڑا جہاز تھا۔
یہ حادثہ اور اس کی نوعیت اپنی جگہ مگر اس کے بعد گریٹ لیکس کے جہاز رانی کے ضوابط اور طریقوں میں بڑی تبدیلیاں آئیں جن میں لازمی بقائی (سروایول) سوٹ، گہرائی تلاش کرنے والے، پوزیشننگ سسٹم، فری بورڈ میں اضافہ اور جہازوں کا زیادہ بار معائنہ شامل تھے۔
ملاحوں کی سوچ میں بھی بڑی تبدیلی آئی۔
جو وارن 10 نومبر 1975 کے طوفان کے دوران میں ’آرتھر ایم اینڈرسن‘ جہاز پر تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان کا طریق کار بدل گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد مجھ پر یقین کریں، جب ایک طوفان آیا تو ہم نے فوراً لنگر گرا دیا۔ کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ یہاں بڑے بڑے ڈوب سکتے ہیں۔‘
مارک ٹامسن نے لکھا کہ ’فٹز کے جانے کے بعد سے، کچھ کپتان شدید طوفان میں باہر نکلنے کے بجائے لنگر انداز ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو خود کو ’خراب موسم کے ملاح‘ کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔‘
Comments are closed.