بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عرب ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدور اب واپس جانا چاہتے ہیں!

کووڈ-19: عرب ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدور اب واپس جانا چاہتے ہیں!

ورکر

کووڈ 19 کے وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے ایک سال بعد دنیا کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات سامنے آئے ہیں۔

عرب کے خلیجی ممالک ان معاشی اثرات سے زیادہ محفوظ ہی رہے مگر یہاں پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ تارکیں وطن تھے جو کئی دہائیوں سے اس خطے کے ملکوں کو اپنا گھر تصور کرتے تھے۔

اس عالمی وبا کی ابتدا ہی سے جب گھر سے دور کام کرنے والے ہزاروں ورکر (مزدور اور دیگر ملازمین) پروازوں منسوخ ہو جانے کے بعد یہیں پھنس گئے تھے اور خلیجی ملکوں کی روزگار کے مواقعوں کی جنت ہونے کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گئی۔

جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے بے شمار ورکروں نے غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے خلیجی ملکوں کو خیرباد کہا اور اپنے گھر کو واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ بھی پڑھیے

لیکن ہزاروں ورکر ایسے بھی تھے جن کے لیے یہ مسئلہ ان کے فیصلے کرنے کا نہیں تھا۔ بہت سے خیلجی ملکوں نے نوکریوں کو قومی ملکیت میں لینے کی کوششیں شروع کر دیں کیونکہ شہریوں پر گرتی ہوئی تیل کی عالمی قیمتوں اور معیشت پر پڑنے والے برے اثرات کی وجہ معاشی بوجھ بڑھنے لگا تطا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں غیر ملکی ورکروں کو نوکریوں سے فارغ کر کے گھر بھیجا جانے لگا۔

غیر ملکیوں نے گھر کا راستہ لیا

عالمی وبا کے شروع ہونے کے بعد سے کتنے غیر ملکی خلیجی ملکوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے گئے ان کے بارے میں صحیح تعداد معلوم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن جس پیمانے پر یہ ہجرت ہوئی ہے اس کا اندازہ کچھ مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

خیلجی ملکوں میں کام کرنے والوں میں انڈیا سے تعلق رکھنے والوں افراد کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ لیکن جب کووڈ19 کی وبا پھیلنا شروع ہوئی، ان میں بہت سے نوکریاں ختم ہونے اور مارچ سنہ 2020 میں پروازوں کے منسوخ ہو جانے کے بعد پھنس گئے۔

مئی سنہ 2020 میں انڈیا کی حکومت نے ‘وندے بھارت کا مشن’ شروع کیا جس کے تحت اس نے خصوصی پروازیں شروع کیں تاکہ ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے کارکنوں کو وطن واپس لایا جا سکے۔

انڈیا کی شہری ہوا بازی کے ادارے کے ہردیپ سنگھ پوری نے یکم مارچ کو ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ انڈیا وندے بھارت مشن کے تحت اب تک ساٹھ لاکھ افراد کو وطن واپس لایا گیا ہے۔

انڈیا کے ورکر

فلپائن جو افرادی قوت برآمد کرنے والا ایک اور بڑا ملک ہے اس کی حکومت نے گذشتہ سال کہا تھا کہ ان کو توقع ہے کہ اس سال تین لاکھ سے زیادہ ورکر واپس آ جائیں گے۔

خبر رساں ادارے بلُوم برگ کے مطابق مالیاتی امور کا تجزیہ کرنے والی نجی تنظیم فچ ریٹنگ نے اندازہ لگایا کہ اس صورتحال کی وجہ سے غیر ملکی محصولاتِ زر میں بارہ فیصد کمی آئے گی۔

دریں اثنا افرادی قوت درآمد کرنے والے ایک اور ملک نیپال کے غیر ملکی روزگار کے ادارے نے کہا کہ جولائی سنہ 2020 میں روزگار کے مواقعے دوبارہ پیدا ہونے کے بعد 62 ہزار نیپالی کارکن بیرون ملک منتقل ہوئے۔

اس سال فروری کی تین تاریخ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 سے پیدا ہونے والے صورت حال کی وجہ سے تقریباً ڈھائی لاکھ نیپالی کارکن اپنے ملک واپس آئے، اور اُن میں سے زیادہ تر خلیجی ملکوں سے واپس آئے۔

بیرونی ممالک میں کام کرنے والے ورکروں کے بڑی تعداد میں اپنے ملکوں میں لوٹنے کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں افرادی قوت کی تعداد میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔ جنوبی مشرق ایشیا میں بہت سے ملکوں کا انحصار بڑی حد تک بیرونی ممالک میں بسنے والے ان کے شہریوں کی طرف سے اپنے وطن بھیجے جانے والے رقم پر ہے اور کووڈ 19 کی وبا سے اس رقم میں بڑی حد تک کمی آچکی ہے۔

خیلجی ملک اپنے شہریوں کو ترجیح دے رہے ہیں

کچھ ملکوں میں بیرونی ملکوں سے واپس آنے والے ورکروں کے بارے میں مخالفانہ باتیں شروع ہو گئیں اور عالمی وبا کے شروع ہونے سے جو بے شمار دیگر مسائل پیدا ہوئے تھے انہوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا۔

وسائل میں کمی ہونے کی وجہ سے خلیجی ملکوں میں مقامی آبادی غیر ملکی کارکنوں کے خلاف ہونے لگے جو لاکھوں کی تعداد میں لائے گئے تھے تاکہ وہ سروس انڈسٹری میں کام کر سکیں جن میں مقامی لوگ کام کرنا نہیں چاہتے۔

ان کے کم ہوتے ہوئے وسائل کی وجہ سے خلیجی ممالک کی مقامی آبادی نے ان تارکین وطن مزدوروں کا اپنی محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہرانہ شروع کردیا جن کو یہاں لایا گیا تھا، وہ بنیادی طور پر سروسز انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے اکثر تاریکینِ وطن کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔

ورکر

متحدہ عرب امارات اور کچھ کم استثنیٰ کے ساتھ قطر، دیگر خلیجی ممالک تیل کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنی معیشتوں کو کافی حد تک متنوع بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کے جواب میں، خلیجی ممالک نے اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ان کے شہریوں کو ملازمت کے مواقع اور فوائد کے لحاظ سے ترجیح دی جائے۔

وبائی امراض کے آغاز کے بعد سے، کویت نے غیر ملکی کارکنوں کی تعداد کو 70 فیصد سے کم کرکے 30 فیصد کرنے کے لئے اپنے ہاں ملازمتوں میں بیرون ممالک سے آئے افراد اور مقامی آبادی کے درمیان توازن کو بہتر کرنے کا عہد کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے قلیل مدتی منصوبے تیار کیے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تقریبا تمام سرکاری شعبوں اور کچھ نجی شعبوں میں بھی ملازمتوں کو مقامی آبادی کے لیے مخصوص کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔

پبلک اتھارٹی برائے افرادی قوت نے نجی شعبے میں ملازمتوں کی قلت کا اعلان کرتے ہوئے اس سے سرکاری طور پر غیرملکی ورکروں کو نجی شعبے میں جانے کی اجازت دینے کے لئے ملازمتوں کے شرائط میں معمولی نرمی پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح فروری میں سعودی عرب نے ملک میں تدریسی اور دیگر خدمات کی تمام ملازمتوں کو ’سعودائزیشن` کرنے (صرف سعودی شہریوں کو دینے) کا اعلان کیا۔ میڈیا میں عموماً کہا جاتا ہے کہ اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی شہریوں میں کسی بھی ممکنہ بے روزگاری سے نمٹنے کے لئے ملازمت کے مزید شعبوں کو مقامی شہریوں کے لیے مخصوص کیے جانے کے لیے ایک دباؤ ہے۔

ورکر

سعودی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کے مطابق ، 2020 کی تیسری سہ ماہی میں سعودی شہریوں کے لئے بے روزگاری کی شرح 14.9 فیصد ریکارڈ کی گئی، جبکہ غیر سعودیوں کے لئے یہ 8.5 فیصد تھی۔ تاہم اس فرق کو کم از کم جزوی طور پر غیر ملکیوں کے ویزوں اور اجازت ناموں پر پابندیوں کی وجہ سے کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ غیر ملکی ورکروں کی اکثریت کو بغیر ملازمت کے بیشتر خلیجی ممالک میں مقیم ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

دریں اثنا، عمان کے نیشنل سینٹر برائے شماریات و معلومات کے مطابق ، جنوری 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان تارکین وطن ورکروں کی تعداد میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

تارکین وطن مزدوروں پر اثرات

وبائی امراض کی آمد اور تارکین وطن کی مزدوری پر انحصار کم کرنے کی طرف اٹھائے جانے والے اقدام نے اُن ضروری اصلاحات کے عمل کو روک دیا ہے جن کی وجہ سے خلیجی ممالک ترقی ہونا شروع ہوئی تھی۔

مقامی ملازمتوں کے لیے مواقع مقامی شہریوں کو ترجیح دی جاتی ہے اس بات کی طرف دباؤ کے ساتھ، غیر ملکی کارکنوں کے رہائشی اجازت نامے سے متعلق زیادہ آرام دہ قواعد و ضوابط کی طرف کا سفر اب ایک بڑی سطح پر بدل دیا گیا ہے۔

معمولی خلاف ورزیوں جیسے تارکین وطن کو نوکریوں میں آسانی سے تبدیل کرنے کی اجازت دینے کی بجائے معمولی خلاف ورزیوں کے لئے ملک بدر کیے جانے کا امکان زیادہ ہو جائے گا۔ جس میں آجر یا اسپانسر سے ویزا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ فروری میں جب سعودی عرب اور کویت نے کووڈ-19 کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پروازوں پر زیادہ پابندیاں عائد کردی تھیں تو انڈیا اور دیگر ممالک کے سینکڑوں ورکر متحدہ عرب امارات میں پھنس گئے تھے۔

چونکہ دونوں ممالک نے وبا کے آغاز کے بعد فوراً بعد ہی سے کئی ممالک سے براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کردی تھی، کووڈ 19 انفیکشن کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سے ورکروں نے سفری پابندیوں کے مسائل پر قابو پانے کے لئے متحدہ عرب امارات کے راستے پرواز کرنے کا انتخاب کیا تھا، لیکن اس کے نتیجے میں وہ خود وہاں پھنس گئے، کیونکہ غیرملکیوں کے ممالک میں داخلے پر پابندی عائد تھی یا متحدہ عرب امارات سے آنے والی پروازوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں تھیں۔

متحدہ عرب امارات میں انڈین سفارتخانے نے ورکروں پر زور دیا کہ وہ اس وقت وطن واپس آنے پر غور کریں، لیکن کچھ ممالک، جیسے سعودی عرب میں مقیم ورکر، پی اے حمید نے کہا کہ حکومت کو ان مزدوروں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے جو پہلے ہی وبا کی وجہ سے دوچار ہیں۔

نیو انڈین ایکسپریس اخبار نے 10 فروری کو رپورٹ کیا تھا کہ حمید نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں پھنسے بیشتر انڈین ایسے ورکر ہیں جو وبا کی وجہ سے ملازمتوں سے محروم ہوکر وطن واپس آئے تھے اور اب جب وہ دوبارہ سے نئی شروعات کی کوشش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں خلیجی ممالک کی سفری پابندیوں نے انھیں متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ان کے لئے دوہری گھبراہٹ ہے۔ انہوں نے اپنا پیسہ، وقت، توانائی خرچ کی ہے اور کووڈ-19 کے تمام اصولوں اور ہدایات پر سختی سے عمل کیا ہے اور اب ان سے واپس جانے کو کہا گیا ہے۔‘

اگرچہ بہت سے ورکروں نے مطالبہ کیا ہے کہ خلیج میں واپس جانے کی اجازت دی جائے، لیکن تمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اتنی بڑی سطح پر واپسی ممکن نہیں ہو گی جتنی کہ پہلے ممکن تھی اور جس کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ اس کے اثرات دونوں مزدوروں اور ان کے آبائی ملکوں پر وبا کے خاتمے کے بعد بہت زیادہ محسوس کیے جائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.