- مصنف, محمد صہیب
- عہدہ, بی بی سی اردو
- 10 منٹ قبل
مشرقِ وسطیٰ کے باسیوں کے لیے 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب ایک طویل رات ثابت ہوئی جب ایران کے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں سے کیے گئے حملے نے سب کی نظریں عرب دنیا کے آسمان پر ٹکا دیں۔ایران کی جانب سے یہ حملہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر کیے گئے اُس حملے کے نتیجے میں کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری اسرائیل واضح الفاظ میں قبول تو نہیں کرتا ہے لیکن اس حوالے سے اقوامِ عالم میں عام رائے یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔گذشتہ چھ ماہ سے عرب خطہ اسرائیل غزہ جنگ کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اس لیے دنیا بھر میں ایران کی جانب سے کیے گئے اس حملے کو بہت غور سے دیکھا جا رہا تھا۔رات بھر آسمان مختلف مواقعوں پر روشن رہا اور اسرائیل اس حملے کے خلاف اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا۔ اسرائیل کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ کچھ ڈرون اور میزائل اس نے اپنے جدید دفاعی نظام کی بدولت پسپا کیے جبکہ اکثر اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی امریکہ سمیت دیگر اتحادیوں کی مدد سے مار گرائے گئے۔
ان اتحادیوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اُردن شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس تینوں ہی مغربی ممالک ہیں لیکن مشرقِ وسطیٰ کے ایک مسلم ملک اُردن کی جانب سے ایران ڈرونز اور میزائل فضا میں مار گرانے کے واقعے کے بعد ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے حیرت کا اظہار کیا تو کچھ اُردن پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان میں ’اُردن‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے سابقہ رکن اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کی جانب سے شاہ اردن عبداللہ دوئم کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے انھیں منفی القابات سے نوازا گیا ہے۔ سینیٹر مشتاق کی اس ٹویٹ پر 26 لاکھ سے زیادہ افراد نے اپنا ردعمل دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔انھوں نے ’آزاد ڈیجیٹل‘ نامی پلیٹ فارم سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہِ اردن کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کے میزائلوں، ڈرونز اور جہازوں کو روکے لیکن ایران نے اسرائیل کی طرف جانے والے میزائل اور ڈرونز روکے۔ مجھے یہ بہت بُرا لگا۔‘پاکستان ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہ اُردن میں بھی اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے جہاں چند ہفتوں پہلے تک امریکی سفارتِ خانے کے باہر اسرائیل مخالف مظاہرے کیے جا رہے تھے۔خیال رہے کہ اردن میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کے آباؤ اجداد کا تعلق فلسطین سے ہے اور شاہ اردن عبداللہ دوئم کی اہلیہ ملکہ رانیہ بھی فلسطین سے تعلق رکھتی ہیں اور حالیہ عرصے غزہ میں سنگین ہوتے انسانی بحران کے حوالے سے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔
اس معاملے پر اُردن اور ایران کا کیا مؤقف ہے؟
عوامی تنقید کے بعد اُردن کی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کی جانب سے یہ اقدام دراصل اُردن کی مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھایا گیا۔بیان کے مطابق ’کچھ آبجیکٹس (اس معاملے میں میزائل اور ڈرون) ہماری فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے جنھیں ہم نے اس لیے روکا کیونکہ یہ ہمارے لوگوں اور آبادی والے علاقوں کے لیے خطرے تھے۔ ان پسپا کیے گئے ٹارگٹس کا ملبہ اردن میں مختلف جگہوں پر گرا لیکن اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔‘بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہماری فوج اُردن کے دفاع کے لیے مستقبل میں بھی کسی بھی ملک کی جانب سے کیے گئے حملے کو پسپا کرے گی اور اپنی قوم، اس کے شہریوں، اپنی فضائی حدود اور علاقے کی حفاظت کرے گی۔‘ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ وہ صیہونی ملک (اسرائیل) کے خلاف حملے کے دوران اُردن کی اقدامات کو پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر اردن نے مداخلت جاری رکھی تو وہ اگلا ہدف ہو سکتا ہے۔‘تاہم ایران کے وزیرِ داخلہ ناصر کنعانی نے پریس بریفنگ کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس حملے کو پسپا کرنے میں اُردن کے کردار پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، یہ ایک فوجی مسئلہ ہے۔۔۔‘’اُردن کے ساتھ ہمارے روابط دوستانہ ہیں اور گذشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے حکام کے درمیان مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔‘خیال رہے کہ حال ہی میں ایران کے حمایت یافتہ عراقی ملشیا گروہ المقاموتہ اسلامیہ کی جانب سے اُردن میں موجود ایک امریکی فوجی اڈے ٹاور 22 پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں تین امریکی فوجی ہلاک جبکہ 34 زخمی ہوئے تھے۔ تاریخی طور پر اُردن کو امریکہ کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے تاہم اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط میں بہتری 1990 کے عشرے میں آئی جب دونوں ممالک کے درمیان امریکی ثالثی کے باعث معاہدہ طے پایا۔
اردن کہاں واقع اور عرب دنیا میں یہ تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.