عرب ’تیل کا وہ جھٹکا‘ جس کے آگے عالمی معیشتیں مجبور ہو جاتی ہیں
- امام ثقلین
- بی بی سی اردو سروس
یوکرین کے حالیہ بحران کے بعد روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے بعد تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خدشات کو فرانسیسی وزیر برائے اقتصادیات اور مالیات برونو لی مائر نے گذشتہ ہفتے ان الفاظ میں بیان کیا کہ یورپ کا موجودہ توانائی کا بحران سنہ 1973 کے ’آئل شاک‘ جیسا شدید ہو سکتا ہے۔
سنہ 1973 میں عرب۔اسرائیل جنگ کے دوران خلیج فارس کی تیل برآمد کرنے والی ریاستوں نے امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو تیل کی فروخت کم کر دی تھی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت چار گنا بڑھ گئی تھی اور دنیا خوفناک کساد بازاری کی شکار ہوئی۔
جب سنہ 1974 میں امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر تیل فروخت کرنے کی پابندی ہٹوانے کے لیے پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کر رہے تھے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں چار گنا اضافے نے دنیا کی معیشتوں کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا۔
آج کا بحران
سنہ 2022 میں عالمی منڈیوں میں پھر سے تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی اگرچہ اپنی بھی کئی وجوہات ہیں تاہم روس کی یوکرین میں فوجی پیش قدمی کے بعد اُس پر مغربی دنیا کی جانب سے اُس پر عائد ہونے والی اقتصادی پابندیاں تیل کی قیمتوں میں بے یقینی کا بڑا سبب ہے۔
یوکرین جنگ کے بعد برینٹ خام تیل کی فی بیرل قیمت 130 ڈالر تک پہنچنے کے بعد پیر تک اتار چڑھاؤ کے بعد 112 ڈالر فی بیرل پر ٹھہری ہے۔ سنہ 2021 کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 50 ڈالر سے لے کر 86 ڈالر کے درمیان رہی، اس طرح گذشتہ برس یہ قیمت اوسطاً فی بیرل قیمت 71 ڈالر رہی جو کہ اُس سے پچھلے تین برسوں میں سب سے زیادہ تھی۔
جس وقت سنہ 2022 کا سورج طلوع ہوا تو برینٹ خام تیل کی قیمت 84 ڈالر فی بیرل تھی اور اس ماہ یعنی مارچ میں 130 ڈالر فی بیرل کی اونچائی کو چھو لینے کے بعد اب 100 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں عام صارف کے لیے فی گیلن (تقریباً پونے چار لیٹر) قیمت چار سے چھ امریکی ڈالر ہے۔
فرانسیسی وزیر نے کہا کہ ’یورپ کا ہر ملک آج توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے جو کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ سنگین ہے۔‘ عالمی منڈی میں برینٹ خام تیل کی قیمت بڑھے گی جس کے باعث بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق افراطِ زر اور جاری کھاتوں کا خسارے بڑھے گا، یعنی مہنگائی بڑھے گی۔
اس ماہ برطانیہ کے پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی قیمت پہلی بار 1.60 پاؤنڈ فی لیٹر سے زیادہ ہو گئی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ فی لیٹر قیمت تین پاؤنڈ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ بغیر لیڈ والے پیٹرول کی اوسط قیمت اب 1.65 پاؤنڈ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ صرف دو سال پہلے یہ تقریباً 1 پاؤنڈ فی لیٹر کی کم ترین سطح پر تھا۔
برطانیہ میں ڈیزل کی قیمت بھی 1.79 پاؤنڈ فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ میں فی لیٹر تیل کی قیمت میں 27 فیصد تیل کی اپنی قیمت خرید ہوتی ہے جبکہ 40 فیصد فیول ڈیٹی اور 27 فیصد ٹیکس کے علاوہ 17 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور 9 فیصد منافع شامل ہوتا ہے۔
1973 کا تیل کا جھٹکا (آئل شاک)
اگرچہ تیل کی قیمتوں میں بے قاعدگی کے ساتھ تھوڑا بہت اتار چڑھاؤ تاریخ میں کئی مواقع پر وقفوں وقفوں سے ہوتا رہا ہے، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا اضافہ نہیں دیکھا گیا جیسا کہ سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اُس سال کی آخری سہ ماہی میں دیکھا گیا تھا۔
چھ اکتوبر سنہ 1973 کو شام اور مصر کی فوجوں نے یہودیوں کے ایک مذہبی تہوار ’یوم کِپور’ کی چھٹی کے روز اسرائیل پر حملہ کیا۔ یہ حملہ سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں کھوئے ہوئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ ابتدائی طور پر ایسا لگا کہ اسرائیل شکست کھا رہا ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو کمزور دیکھتے ہوئے اُس کی مدد کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور امریکی کانگریس نے اسرائیلیوں کو اضافی 2.2 ارب ڈالر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ نے فوری طور پر اسرائیل کو اسلحے کی نئی کمک روانہ کی تاکہ وہ عرب ممالک کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔
صدر نکسن نے بڑے پیمانے پر ہوائی جہازوں پر اسلحہ اور دیگر فوجی امداد اسرائیل روانہ کی اور اسرائیل کی مدد کے لیے ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کی طرف روانہ کیا۔ سوویت یونین بھی اپنے عرب اتحادیوں، مصر اور شام کو تیزی سے اسلحہ سپلائی کر رہا تھا۔
جب صدر نکسن نے اسرائیل کے لیے فوجی امداد بڑھائی تو خلیج فارس کے علاقے میں تیل پیدا کرنے والی ریاستوں نے سعودی عرب کی قیادت میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ کے تحت امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کو تیل کی فروخت پر پابندی کا اعلان کر دیا۔
عرب-اسرائیل جنگ کے دوسرے ہفتے یعنی 17 اکتوبر سنہ 1973 کو اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکہ اور اسرائیل کے حامیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سعودی عرب اور اوپیک نے تیل کی پیداوار میں پانچ فیصد کمی کا اعلان کر دیا جس سے امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں تیل کی سپلائی کی شدید کمی ہو گئی۔
پانچ ممالک یعنی ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، اور وینیزویلا نے 1960 میں اوپیک تشکیل دی تھی۔ سنہ 1973 تک مزید سات ممالک کے شامل ہونے کے ساتھ اوپیک ممالک کی پیداوار دنیا میں پیدا ہونے والے تیل کا نصف تھی۔ اس پابندی کا قیمتوں پر گہرا اثر ہوا۔
پابندیوں کے اثرات
عرب اسرائیل جنگ سے پہلے سنہ 1972 تک عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 1.8 ڈالر فی بیرل تھی لیکن سنہ 1973 میں یہ قیمت اوسطاً 2.7 ڈالر فی بیرل ہو چکی تھی۔ تاہم جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد پابندیاں لگیں تو تیل کی قیمت اوسطاً 11 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔
سنہ 1973 کے دوسرے نصف میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی پابندی سے قبل امریکہ میں تیل کی ترسیل کی قیمت تقریباً 3 ڈالر فی بیرل تھی جو بعد میں تقریباً 12 ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس سے عام صارفین کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت پیدا ہو گئی کہ راتوں رات پیٹرول پمپوں پر فی گیلن قیمتیں تقریباً دگنی ہو گئیں۔
امریکہ میں پیٹرول پمپوں پر پیٹرول کی قیمت میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ فی گیلن پیٹرول کی قیمت 38 سینٹ سے بڑھ کر 55 سینٹ فی گیلن تک پہنچ گئی۔ حکومت کو براہ راست اور بالواسطہ یعنی اپیلوں کے ذریعے تیل کے کوٹے نافذ کرنے پڑے اور سنیچر اور اتوار کو فروخت بند کر دی گئی جبکہ کرسمس کی تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔
شاہراہوں پر حدِ رفتار زیادہ سے زیادہ 55 میل فی گھنٹہ مقرر کر دی گئی تاکہ زیادہ پیٹرول استعمال نہ ہو۔ ایس ہی پابندیاں ہالینڈ، پرتگال، جاپان، جنوبی افریقہ، رھوڈیشیا اور چند دیگر ممالک پر اسرائیل کی حمایت کرنے پر عائد کی گئی تھیں۔
اس بحران سے پہلے تیل کی قیمت فکسڈ تھی اور دوطرفہ یا کثیرالممالک کے درمیان معاہدوں کے ذریعے طے پاتی تھی۔ اُس وقت تک تیل کی قیمت آزاد منڈی طے نہیں کرتی تھی۔
مزید پڑھیے
امریکی معیشت پر اثر
ان پابندیوں کی وجہ سے امریکہ کی معیشت پر جو اثر پڑا تھا اسے امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے چیئرمین آرتھر برنز نے سنہ 1974 میں اس طرح بیان کیا تھا: ’تیل برآمد کرنے والے ممالک کی طرف سے تیل کی قیمتوں اور سپلائی میں اچانک اضافہ امریکہ کے لیے انتہائی نامناسب وقت پر آنا تھا۔‘
ان کے مطابق سنہ 1973 کے وسط میں صنعتی اشیا کی ہول سیل قیمتیں پہلے ہی 10 فیصد سے زیادہ سالانہ شرح سے بڑھ رہی تھیں۔ ’ہمارا صنعتی پلانٹ عملی طور پر پوری صلاحیت سے کام کر رہا تھا۔ اور بہت سے بڑے صنعتی مواد کی فراہمی انتہائی کم تھی۔‘ تیل کی قیمت کے اچانک اضافے نے ہر چیز تہہ و بالا کر دی۔
پاکستان پر اثرات
قیمت کے اس طرح تعین کی وجہ سے پاکستان میں بحران سے پہلے اوسطاً فی گیلن قیمت 3 یا 4 روپے کے درمیان ہوتی تھی، یعنی ایک لیٹر کی قیمت ایک روپے سے کم ہوتی تھی۔ سینیئر صحافی اور کیمبرج یونیورسٹی کے محقق مجید شیخ کے مطابق ’آئل شاک‘ کے بعد پاکستان میں تیل کی فی گیلن قیمت تقریباً 7 روپے ہو گئی۔
اُس زمانے میں پاکستان بھر میں ایک جیسی قیمت نہیں ہوتی تھی، بلوچستان میں سب سے سستا تیل ملتا تھا جبکہ شمالی علاقوں میں مہنگا۔ پاکستان میں یکساں قیمت کی پالیسی اس بحران کے بعد سنہ 1974 میں متعارف کروائی گئی تھی اور بھٹو حکومت نے تیل کی صنعت کو قومیا کر پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی بنائی تھی۔
یورپ پر اثرات
تیل کی پابندی کا اثر پورے مغربی یورپ میں یکساں نہیں تھا۔ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، سوئٹزر لینڈ اور ناروے نے پروازوں، ڈرائیونگ اور کشتی رانی پر کئی اقسام کی پابندیاں عائد کر دیں۔
سویڈن میں پیٹرول اور ہیٹنگ آئل کے کوٹے نافذ کیے گئے۔ ہالینڈ نے ان لوگوں پر جیل کی سزائیں عائد کیں جو اپنے کوٹے سے زیادہ بجلی استعمال کرتے تھے۔
یورپی اکنامک کمیونٹی (EEC) کے نو ارکان میں سے ہالینڈ کو تیل کی مکمل پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس برطانیہ اور فرانس کو تقریباً بلاتعطل کچھ نہ کچھ تیل کی رسد ملتی رہی۔
اُس کی وجہ یہ تھی کہ ان ممالک نے امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور عربوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اسلحہ اور سپلائی روک دی تھی۔
یورپی اکنامک کمیونٹی کے دیگر چھ ممالک کو تیل کی سپلائی جزوی طور پر بند ہوئی۔ اوپیک کے عرب ارکان نے تیل کی برآمد پر پابندیوں کو دوسرے ممالک تک بڑھایا جنھوں نے اسرائیل کی حمایت کی جن میں ہالینڈ، پرتگال اور جنوبی افریقہ بھی شامل تھے۔ اس پابندی کی زد میں آنے والے ممالک کو پیٹرولیم کی برآمدات پر پابندی لگا دی گئی اور تیل کی پیداوار میں کٹوتیوں کو متعارف کروایا۔
جاپان پر اثرات
چونکہ اوپیک کی جانب سے تیل کی سپلائی پر پابندی جاپان پر بھی عائد ہوئی تھی جس کا جاپان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔ جاپان اپنا 90 فیصد تیل مشرق وسطیٰ سے درآمد کرتا تھا۔ جاپان کے پاس 55 دنوں کا ذخیرہ تھا اور مزید 20 دن کی سپلائی راستے میں تیل کے بحری جہازوں کے کنٹینروں میں تھی۔
سنہ 1945 کے بعد کے عرصے میں اپنے سب سے سنگین بحران کا سامنا کرتے ہوئے جاپانی حکومت نے صنعتی تیل اور بجلی کی کھپت میں 10 فیصد کمی کا حکم دیا۔ دسمبر میں اس نے جاپان کی بڑی صنعتوں کے لیے تیل کے استعمال اور بجلی کے استعمال میں فوری طور پر 20 فیصد کمی، اور کاروں کے استعمال کو محدود کر دیا۔
’آئل شاک‘ ڈالر اور سونا
ڈالر کی قدر میں کمی جس کا آغاز سنہ 1971 کی دہائی میں ہوا وہ بھی اوپیک کی طرف سے قائم کردہ قیمتوں میں اضافے کا ایک مرکزی عنصر تھا۔ سنہ 1971 سے پہلے تک چونکہ تیل کی قیمت ڈالر میں طے ہوتی تھی، اس لیے ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت نے مؤثر طریقے سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آمدن کو کم کردیا تھا۔
امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کی ایک رپورٹ کے مطابق اوپیک ممالک نے اپنے تیل کی قیمتیں سونے کے حساب سے مقرر کی ہوئی تھیں، نہ کہ ڈالر کی قدر میں۔ سنہ 1971 میں بریٹن ووڈز معاہدے کے خاتمے کی وجہ سے جس کے تحت سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس تھی، سنہ 1970 کی دہائی کے آخر تک سونے کی قیمت 455 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی تھی۔
امریکی ماہرین اقتصادیات ڈیوڈ ہیمس اور ڈگلس وِلز اپنی تصنیف ’بلیک گولڈ: دی اینڈ آف دی بریٹن ووڈز اینڈ دی آئل پرائس شاکس آف دی سیوینٹیز‘ میں کہتے ہیں کہ ڈالر کی قدر میں یہ زبردست تبدیلی سنہ 1970 کی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک ناقابل تردید اہم عنصر ہے۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے فرینک اے وریسٹرو اس مسئلے کو اپنے ایک مقالے میں یوں بیان کرتے ہیں:
’سنہ 1971 کے اگست کے مہینے میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر بریٹن ووڈز معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا جس سے ڈالر کی قدر کا تعلق سونے سے ختم ہو گیا۔ نتیجتاً ڈالر کی قدر آزاد منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی اور ڈالر کی قیمت قدرے گر گئی۔‘
’صنعتی ممالک نے بعد میں اس کی پیروی کی اور اپنے ذخائر میں (کاغذی رقم چھاپ کر) اضافہ کیا، اس طرح ان کی کرنسیاں ایک دوسرے کے خلاف مستحکم ہوئیں۔ چونکہ تیل کی قیمت ڈالر میں تھی، اس لیے ڈالر کی گراوٹ نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آمدن کو بہت کم کر دیا، جبکہ صنعتی دنیا سے درآمدات کی قیمت بڑھ گئی۔‘
اسی لیے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ عرب ممالک نے امریکہ اور مغربی صنعتی طاقتوں پر تیل کی برآمد اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے بند کی تھی، تاہم اصل وجہ مالیاتی تھی۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک نے پابندی کے بعد تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے خوب استفادہ کیا۔
اوپیک کے رکن ممالک نے قیمتوں میں چار گنا اضافے کی وجہ سے ڈالر کی گرتی قدر کے باعث ہونے والے نقصانات کی تلافی بھی کر لی۔ لیکن جس مقصد کے لیے پابندی عائد کی تھی وہ پھر بھی پورا نہیں ہوا۔ عرب ممالک کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل سنہ 1949 کی سرحد تک واپس چلا جائے۔ پر ایسا نہ ہوا۔
نیا عالمی مالیاتی نظام
اگرچہ سنہ 1973 کے آئل شاک کے بعد قیمتیں جلد ہی مستحکم ہو گئیں لیکن تیل کے بحران نے بین الاقوامی نظام پر گہرا اثر ڈالا۔ سب سے پہلے عالمی توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آمدن میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ یہ آمدن مغربی بینکوں میں جمع کروائی گئی۔
ان بینکوں میں جمع ہونے والے ڈالروں کے ذخائر سے ’پیٹروڈولر ری سائیکلنگ‘ کہلانے والے نظام کے ذریعے تیل درآمد کرنے والے ترقی پذیر ممالک کو ان کی توانائی کی درآمدات کے لیے مالی اعانت فراہم کی گئی تاکہ وہ تیل کے مہنگے ہونے کے نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔
تیل کی تجارت آزاد منڈی میں شروع ہوئی جس کا فائدہ اوپیک ممالک کی آمدن میں شدید اضافے کی صورت میں ہوا۔ سنہ 1973 سے پہلے خلیجی ریاستوں کی آمدن اتنی زیادہ نہ تھی کہ ان کے شہزادے بھی ایک پر تعیش زندگی بسر کرتے۔ لیکن اس کے بعد دولت کی ریل پیل سے دنیا میں نئے امیر لوگوں کا ایک نیا طبقہ ابھرا۔
انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، فلپائن اور تیسری دنیا کے کئی ممالک نے اپنے محنت کش ان خلیجی ریاستوں کی تعمیر کے لیے برآمد کیے اور ترسیلاتِ زر کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک میں قومی سطح پر نئی آمدن کے علاوہ مقامی سطح پر متوسط درجے کی نئی آبادیاں بنیں۔
تیل کے بحران نے مغرب کی صنعتی قوموں کو درپیش معاشی مشکلات کو بھی بڑھا دیا۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اقتصادی ترقی کو کم کر دیا اور افراط زر کو فروغ دیا۔ ایک ایسی صورتحال نے جنم لیا جسے ’سٹیگ فلیشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جغرافیائی اور سیاسی محاذ پر اوپیک کے اقدامات نے ترقی پذیر ممالک کو ’نئے بین الاقوامی اقتصادی آرڈر‘ کے قیام کا مطالبہ کرنے کی ترغیب دی، عالمی اقتصادی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں غیر ملکی امداد کی سطح میں اضافہ، خود مختار قرضوں سے نجات، اور صنعتی ممالک کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدے شامل تھے۔
اس کے علاوہ دہائیوں سے سستے تیل ملنے کا دور ختم ہوا اور اس مہنگے تیل کے بحران نے صنعتی ممالک کو اپنی توانائی کے استعمال کو روکنے کے دیگر طریقے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر توانائی کی بچت بھی شروع ہوئی اور چھ سلنڈر کاروں سے چار سلنڈر جاپانی کاروں کا رواج بڑھا۔
سیاسی اثرات
سنہ 1974 میں اوپیک ممالک کا آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والا اجلاس
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ میں پیٹرول کی قطاریں اور کوٹے نہیں دیکھے گئے تھے۔ اور اس معاملے میں کوئی پرل ہاربر جیسا واقعہ بھی نہیں ہوا تھا، جنگ کا کوئی اعلان نہیں تھا اور عوام میں کسی قومی جذبے کے تحت قربانی دینے کے بارے میں بہت کم احساس تھا۔
سنہ 1973 سے پہلے امریکی تیل کی قیمتوں کو سرکاری اداروں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں مسلسل تیل کی قیمتوں میں اضافے کو صرف کبھی کبھار کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ کے طریقے سے قابو میں رکھا جاتا تھا لیکن بعد میں آزاد منڈی کا اصول زور پکڑتا گیا۔
اس بحران کے دوران امریکہ میں ہر شخص کو معلوم ہو گیا کہ ’اوپیک‘ کا مطلب پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے اسرائیل کے ساتھ امریکی وفاداری کی قیمت پر سوال اٹھایا، لیکن زیادہ تر نے ’عرب تیل کے شیخوں‘ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ ان کے خلاف جوابی اقدامات کے لیے بھی آوازیں بلند ہوئی تھیں۔
سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اوپیک کے عرب ارکان نے اسرائیلی فوج کو دوبارہ ساز و سامان فراہم کرنے اور جنگ کے بعد امن میں فائدہ اٹھانے کے امریکی فیصلے کے بدلے میں امریکہ کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک اور تیل کمپنیوں کے درمیان کئی سالوں کے مذاکرات پہلے ہی دہائیوں پرانے قیمتوں کے نظام کو غیر مستحکم کر چکے تھے، جس نے پابندی کے اثرات کو مزید بڑھا دیا تھا۔ اسی دوران کموڈیٹیز کی عالمی قیمتیں بھی بڑھ رہی تھیں اور امریکی ڈالر کی قیمت سونے سے الگ ہونے کی وجہ سے گر رہی تھی۔
ان عوامل کے علاوہ کئی دیگر اسباب بھی ایسے تھے جن کی وجہ سے عالمی منڈی میں اقتصادی بحران سنگین ہوتا گیا۔ خود امریکہ کافی برسوں سے تیل کی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو خام تیل ان کے زیر تسلط سابق نوآبادیات سے مل رہا تھا اس لیے پابندیوں کا بہت گہرا اثر ہوا۔
روسی گیس پائپ لائنز کی مدد سے مشرقی اور مرکزی یورپ تک جاتی ہے
موجودہ بحران کے عالمی اثرات
سنہ 1973 کے تیل کے بحران ’آئل شاک‘ کے بعد نیا عالمی مالیاتی نظام تشکیل پایا۔ عرب ممالک جو سیاسی طور پر تو آزاد ہو چکے تھے، اب مالی طور پر آزاد ہو گئے اور ایک لحاظ سے اس بحران کے بعد اپنی برآمدات کا صحیح فائدہ اور منافع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سنہ 1973 کے تیل کے بحران کی طرح یوکرین پر حملے اور روس پر پابندیوں کے بعد جس طرح تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اس کے بھی مالی، جغرافیائی اور سیاسی اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
یوکرین پر روسی چڑھائی کے بعد شروع ہونے والے بحران نے عالمی سیاست اور تعلقات میں بھی نئی جہتیں اور سمتیں متعارف کروائی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت جو ایک عمومی تاثر کے مطابق امریکہ کے ہر اشارے پر اقدامات کرنے کے لیے تیار تھے انھوں نے امریکی صدر کے فون سننے سے انکار کر دیا۔
تیل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے امریکی صدر نے ان سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا کہا تھا جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ نہ صرف دو خلیجی ریاستوں کے سربراہوں نے صدر بائیڈن کا فون سننے سے انکار کیا بلکہ سعودی عرب نے تو چین کو تیل کی فروخت چین کی کرنسی میں کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح انڈیا نے روس کے ساتھ روسی کرنسی میں تیل کی درآمد کا معاہدہ کر لیا ہے۔
تیل کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے وینیزویلا کی اُس حکومت سے رابطہ کیا جسے وہ تسلیم ہی نہیں کرتا۔ امریکہ اور چند دیگر مغربی ممالک نکولجس مدورو کی جگہ حزب اختلاف کے لیڈر خوان گوائیڈو کو وینیزویلا کا صدر قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کر کے تعلقات بہتر کرنے کی پہلے سے ہی کوشش کر رہی ہے جسے سست بھی سمجھا جاتا ہے مگر موجودہ بحران میں اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ معاہدے کو جلد از جلد بحال کیا جائے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کا ایک نیا سپلائر آئے اور قیمتیں کم ہو سکیں۔
تیل کی قیمتوں کے دیگر اہم بحران
سنہ 1974 کے آخر میں جب تیل کی قیمتوں کا پہلا بحران ختم ہوا تو اس کے بعد عالمی منڈی میں ایک طویل عرصے تک تیل کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ تاہم اس کے بعد قیمتیں حقیقی معنوں میں بلند رہیں۔
مگر جب سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو دوسری مرتبہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ ہوا۔ انقلاب سے قبل تیل کی قیمت 14 ڈالر فی بیرل تھی لیکن آخر میں اوپیک کی پیداوار میں مزید کمی (جزوی طور پر ایرانی انقلاب کی وجہ سے) کے باعث تیل کی قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں تھیں۔
اگرچہ 80 کی دہائی کے اوائل میں تیل کی حقیقی قیمتوں میں کچھ کمی آئی لیکن ان دو جھٹکوں کے نتیجے میں تیل کی تاریخی قیمتوں کے 15 سالہ دور کا جو نتیجہ نکلا وہ سنہ 1986 کے آغاز میں ختم ہوا جب اوپیک یا خاص طور پر سعودی عرب نے تیل کی پیداواری مقدار پر تمام رکاوٹوں کو ترک کر دیا۔
سنہ 1990 کے دوسرے نصف میں خلیج فارس کے بحران (عراق کے کویت پر حملے اور پھر امریکی قیادت میں عراق کے خلاف جنگ) کے نتیجے میں سپلائی میں بڑے خلل کے خدشے کے باعث قیمتوں میں تیسرا اور بہت ہی عارضی اضافہ ہوا جب تیل کی قیمت 36 ڈالر فی بیرل سے 38 ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی۔
جب یہ خدشات غلط ثابت ہوئے تو قیمتیں جلد ہی بحران سے پہلے کی سطح پر واپس آ گئیں۔ اس کے بعد تیل کی قیمتوں کا بڑا بحران سنہ 1997 کے مشرق بعید کے مالیاتی بحران کے بعد پیدا ہوا، لیکن اس مرتبہ سنہ 1998 میں تیل کی قیمت بہت زیادہ نیچے یعنی 11 ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھی۔
اس کے بعد تیل کی قیمتوں کا بڑا بحران سنہ 2007 میں آیا جب تیل 28 ڈالر فی بیرل سے 134 ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس بحران کی کئی وجوہات تھیں۔ اکثر ماہرین تیل کی بڑھتی ہوئی طلب بتاتے ہیں اور کچھ ان دنوں امریکہ کے ایران پر حملے کے بڑھتے ہوئے خدشات کو۔
مگر اس کے ایک سال بعد ہی عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے سنہ 2009 میں تیل کی قیمت 39 ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھی۔
Comments are closed.