عرب بغاوت: عربوں نے کیسے اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر سلطنتِ عثمانیہ کو شکست دی اور ’ٹرانس اردن‘ کی بنیاد رکھی؟
- مصنف, ولید بدران
- عہدہ, بی بی سی عربی سروس
- ایک گھنٹہ قبل
یہ 25 مئی 1923 کی بات ہے۔ برطانیہ نے اردن کی آزادی پر مہر ثبت کر دی تھی اور اس وقت اس کی کمان شہزادہ عبداللہ بن الحسین کے ہاتھ میں تھی۔23 سال بعد 1946 میں آج کے دن یہ ایک آزاد ملک بنا اور 25 مئی کی اسی تاریخ کو اردن کی ہاشمی سلطنت کی بنیاد بھی رکھی گئی۔لیکن اردن کی آزادی کے لیے اس وقت طے پانے والے معاہدے کے مطابق اور بعد میں سنہ 1928 کے آئین کے مطابق بھی برطانیہ کو اس ملک کے اقتصادی، عسکری اور خارجہ امور کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ بائبل میں درج تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس علاقے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے دریائے اردن فلسطین سے الگ کرتا ہے۔
بائبل میں جن سلطنتوں کا ذکر ہے جیسا کہ موآب، گیلاد اور آدم، یہ سب اردن کی سرحد میں واقع تھیں۔دارالحکومت اور جزیرہ نما عرب کا رومی صوبہ بھی یہیں موجود تھا جو اپنے سرخ پتھروں کے لیے مشہور ہے۔برطانوی سیاح گرٹروڈ بیل نے پیٹرا کو کچھ یوں بیان کیا ’یہ ایک افسانوی شہر کی طرح تھا، یہاں ہر چیز گلابی اور شاندار ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ٹرانس جارڈن‘ کی کہانی
پہلی عالمی جنگ کے دوران عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف سنہ 1916 کے انقلاب میں اتحادی قوتوں (برطانیہ اور فرانس) کے ساتھ ہاتھ ملایا۔برطانوی انٹیلی جنس افسر تھامس ایڈورڈ لارنس جزیرہ نما عرب پہنچ گئے اور دو سال تک عرب جنگجوؤں کے ساتھ کام کیا۔ یہ ایک طرح کی ملیشیا تھی۔لارنس ایک رابطہ افسر بن گئے۔ وہ مکہ میں اس وقت مرکزی رہنما شریف حسین بن علی کے بیٹے فیصل کے مشیر کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ میں تھامس ایڈورڈ کو ’لارنس آف عربیہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ حکمت عملی کے ماہر تھے اور انھوں نے ترکوں کے خلاف جنگ میں بااثر کردار ادا کیا تھا۔ اکتوبر 1916 میں شریف حسین بن علی نے خود کو ’عرب ممالک کا بادشاہ‘ قرار دیا۔ تاہم ان کے ساتھیوں نے انھیں صرف ’حجاز کے بادشاہ‘ کے طور پر تسلیم کیا۔عرب افواج حجاز ریلوے لائنز پر قبضہ کیا اور پھر جولائی 1917 میں شہزادہ فیصل بن علی حسین کی فوج نے عقبہ پر قبضہ کر لیا۔بحیرہ احمر کے کنارے تعمیر ہونے والی بندرگاہ عقبہ کی تزویراتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شہزادہ فیصل کی فوج کی یہ پہلی بڑی فتح تھی۔ان کی فوج کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور وہ آہستہ آہستہ شمال کی طرف بڑھنے لگے۔چار اکتوبر 1918 کو شہزادہ فیصل کی سربراہی میں ان کی فوج دمشق میں داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی گذشتہ چار سو سال سے قائم عثمانی سلطنت کا تسلط ختم ہو گیا۔ترک مسلسل کمزور ہو رہے تھے مگر عرب افواج اور ترک فوج کے درمیان جنگ 1918 کے آخر تک جاری رہی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس دوران برطانیہ نے عراق میں اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران 1917 میں برطانیہ نے بصرہ، بغداد اور موصل کا کنٹرول سنبھال لیا جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔تاہم مئی 1920 میں عراق میں اتحادی قوتوں کے خلاف بغاوت چھڑ گئی۔ عراقی عوام نے محسوس کیا کہ جس آزادی کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا اسے نظرانداز کر دیا گیا ہے۔برطانیہ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے مزید ایک لاکھ برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کو تعینات کرنے کی ضرورت تھی۔برطانوی حکومت کی مخالفت کو کم کرنے کے لیے برطانیہ نے مارچ 1921 میں فیصلہ کیا کہ وہ شاہ فیصل کو عراق کے نمائندے کے طور پر سپانسر کرے گا تاکہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جا سکے جس سے عراق کی آزادی کا راستہ کھل جائے۔شاہ فیصل نے اس منصوبے پر رضامندی ظاہر کی۔ عراق میں ان کا استقبال کیا گیا اور اگست 1921 میں انھیں وہاں تاج پہنایا گیا۔اپریل1921 تک اتحادی قوتوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ شاہ فیصل کے بھائی عبداللہ کو ’ٹرانس جارڈن‘ کا حکمران بننا چاہیے۔اس طرح برطانوی راج نے اردن کے علاقے میں عثمانی ترکوں کی جگہ لے لی۔ جولائی 1922 میں لیگ آف نیشنز نے اس مینڈیٹ کی منظوری دی اور برطانیہ کو اس علاقے پر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کا حق مل گیا۔25 مئی 1923 کو برطانیہ نے ’ٹرانس جارڈن‘ کی آزادی پر مہر لگا دی۔ شہزادہ عبداللہ بن الحسین کو اس کا حکمران مقرر کیا گیا۔’ٹرانس جارڈن‘ کی آزادی کے اس معاہدے اور 1928 کے آئین کے مطابق مالی، عسکری اور خارجہ امور کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق برطانوی حکومت کے ہاتھ میں رہا۔اتحادی قوتوں کی طرف سے حکومت کرنے کے لیے وہاں ایک ریزیڈینٹ مقرر کیا گیا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد 22 مارچ 1946 کو لندن میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت امارات آف ٹرانس جارڈن کو مکمل آزادی ملی۔عبداللہ نے خود کو بادشاہ قرار دیا۔ ایک نیا آئین بنایا گیا اور 1949 میں امارات آف ٹرانس جارڈن کا نام بدل کر ہاشمی کنگڈم آف اردن رکھ دیا گیا۔
شاہ عبداللہ اول کون تھے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.