- مصنف, فیراس کیلانی اور حیدر احمد
- عہدہ, بی بی سی عربی، بغداد
- ایک گھنٹہ قبل
امریکہ نے عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گرہوں کے تین ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ حملے امریکی اور بین الاقوامی افواج پر کیے جانے والے ‘حملوں’ کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
عراق میں امریکی حملوں کا ردِعمل
عراقی حکومت نے امریکی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ عراقی وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی کے ایک ترجمان نے اسے اپنے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ان ‘متناسب’ حملوں میں ایران سے جُڑے گروہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عراق میں امریکی فوجی ٹھکانوں کو کس نے نشانہ بنایا؟
کتائب حزب اللہ ان تین گروہوں میں سے ایک ہے جس نے عراق میں امریکی بیسز پر حملے کیے اور امریکہ نے پھر اس کے جنگجوؤں کو جواب میں نشانہ بنایا۔
کتائب حزب اللہ ایک طاقتور عراقی شعیہ گروہ ہے جسے مالی اور عسکری طور پر ایران کی مدد حاصل ہے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس گروہ کی ایران کی القدس فورس سے گہرے تعلقات ہیں اور اس کے جنگجو دیگر ممالک میں ایران کے پاسدرانِ انقلاب کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس تشدد کی جڑیں کہاں جا کر ملتی ہیں؟
عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدگی کی وجہ غزہ میں جاری جنگ میں جس کی شروعات گذشتہ برس 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں سے ہوئی تھی۔امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی ابتدا سے اب تک ان کی فوج پر عراق اور شام میں تقریباً 151 حملے ہو چکے ہیں جس میں راکٹ اور ڈرون حملے شامل ہیں۔واضح رہے امریکہ کے 2500 سے فوجی عراق اور اس کے پڑوسی ملک شام میں اب بھِی 900 فوجی موجود ہیں تاکہ شدت پسند گروہ داعش کو دوبارہ طاقتور ہونے سے روکا جا سکے۔ایران کے حامی گروہوں کا اصرار ہے کہ عراق میں امریکی ٹھکانوں پر حملے کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا اور ایران کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔عراق، شام اور لبنان میں یہ گروہ ‘ایکسز آف ریززٹنس’ کے نام سے بھی کام کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گروہ خطے میں دباؤ بڑھانے کے لیے ایران کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
عراق میں ایران کے حامی دیگر گروہ کون سے ہیں؟
عراق میں ایران کا سب سے بڑا حمایتی گروہ ‘پاپولر موبلآئزیشن فورسز’ ہوا کرتا تھا۔ یہ گروہ متعدد شعیہ عسکریت پسند گروپس پر متشمل تھا جو کہ شدت پسند گروہ داعش کے خلاف متحد ہوئے تھے۔’پاپولر موبلآئزیشن فورسز’ کو ابتدائی طور پر ایران کے حمایتی گروہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن 2016 میں اسے عراقی فوج میں ضم کردیا گیا اور اس کا کنٹرول بھی فوج کے پاس چلا گیا۔
عراق حکومت اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟
عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکی حملوں میں اس کے فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں ‘پاپولر موبلآئزیشن فورسز’ کے اراکین بھی مارے جا رہے ہیں۔ ان کی جانب سے امریکی حملوں کا موازنہ غزہ کی صورتحال سے کیا جا رہا ہے۔عراقی وزیرِ اعظم کے ترجمان میجر جنرل یحییٰ رسول کا کہنا ہے کہ ‘خطے میں جاری تنازع کے پھیلنے کے خطرات پہلے ہی منڈلا رہے ہیں جس کی وجہ غزہ میں جاری جارحیت اور وہ غیراخلاقی جنگ ہے جس کا فلسطین کے لوگوں کو سامنا ہے۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘جب بڑی طاقتیں بشمول امریکہ نے ان جرائم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ایسے وقت میں امریکہ بھی عراقی سرزمین اور قومی خود مختاری پر بے بنیاد اور بے وجہ حملوں میں مصروف ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عوامی سطح پر جاری بیانات کے پسِ منظر میں عراقی حکومت امریکہ اور ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان مصالحت کروانے میں مصروف ہے لیکن اسے ان کوششوں میں تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔عراق وزیرِ اعظم کی جانب سے بھی امریکی فوج کی ملک میں موجودگی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ملے جُلے پیغامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔امریکہ نے اپنے فوجیوں کو 2003 میں عراق پر حملے کے وقت تعینات کیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.