عراق: جب دو آٹسٹک بچوں کی ماں نے سوشل میڈیا ویڈیوز کے ذریعے معاشرتی رویے میں تبدیلی پیدا کی
شیماء الھاشمی اپنے جیسے والدین کے لیے امید کی کرن بننا چاہتی ہے۔
- مصنف, لمیس الطالبی
- عہدہ, بی بی سی عربی
ایک عراقی ماں شيماء الهاشمی اپنے دو آئٹزم کا شکار بچوں کے بارے میں معاشرے میں آگہی کی کمی اور منفی رائے عامہ کی وجہ سے بے بس اور تھک چکی تھی۔ لہٰذا انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نجی زندگی کے بارے میں ویڈیوز پوسٹ کر کے اس مسئلے کے بارے میں معاشرہ میں نہ صرف آگاہی پیدا کریں گی بلکہ اس متعلق رائے عامہ بھی بہتر کریں گی، لیکن اسی وجہ سے اُنھیں تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا۔
’تمہیں ان پر کیوں فخر ہے؟ وہ پاگل بچے ہیں اور ان کی اِس حالت کے باوجود تم اپنے بچوں سے پیسے کما رہی ہو۔‘
ایسے دل آزار تبصرے دو آٹسٹک اور نابینا بچوں کی ماں کی اپ لوڈ کردہ ویڈیوز کے جواب میں کیے گئے تھے۔ یہ ایک تکلیف دہ تبصرہ ہے اور عام طور پر اس قسم کا تبصرہ لوگ شیماء الھاشمی کے انسٹاگرام پیج پر پوسٹ کرتے ہیں تاکہ انھیں شرمندہ کیا جائے۔
بغداد میں رہنے والی ان بچوں کی ماں اس ذہنی بیماری کے بارے میں منفی رائے عامہ کو بدلنے کے لیے اپنی گھریلو زندگی کی ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں چاہتی تھی کہ دوسرے والدین کو میری طرح تکلیف پہنچے اور میں ہر ماں اور باپ کے لیے امید کی ایک کرن بننا چاہتی تھی۔ ‘
(ان کے بچے آٹزم کا شکارہیں اور ایسے متاثرہ لوگوں کو دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔)
ماں کا حوصلہ
شیما اب اپنی کوششوں سے پریشان نہیں ہے بلکہ وہ پرسکون ہے اور اب ان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فالورز ہیں، اس کے باوجود وہ جانتی ہیں کہ رائے عامہ بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اُنھیں ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔
ماں نے اعتراف کیا کہ وہ پہلے تو یہ نہیں جانتی تھیں کہ اپنی بیٹی، آیا کے ساتھ کیا کِیا جائے۔ وہ کہتی ہے کہ ’17 سال پہلے، ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ آٹزم کیا ہے، اور ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ آٹزم کا شکار بچہ الگ تھلگ کونے میں بیٹھا رہتا ہے اور دوسروں سے تعلقات نہیں بناتا اور کم بولتا ہے۔‘
شیما نے تعلیمی کورسز اور دوسرے ممالک میں ڈاکٹروں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے آٹزم کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں تاکہ وہ خود اپنے بچوں کی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے کچھ سیکھ سکیں۔ اور پھر انھوں نے ان معلومات اور اپنے کامیاب تجربات کو اپنے انسٹاگرام پیج پر شیئر کرنے کے لیے سخت محنت کی، تاکہ یہ فائدہ ان کے ایک لاکھ سے زیادہ فالورز کو پہنچ سکے۔
شیما الھاشمی کی بڑی بیٹی آیا نے چار سال کی عمر تک آٹزم کی ابتدائی علامات ظاہر نہیں کیں۔ پہلے تو وہ معمول کے مطابق چلتی تھی اور ان سے کہے گئے الفاظ کو دہراتی تھی، لیکن پھر وہ ایک ہی جگہ محدود رہنے لگی۔ اسے آٹزم کی تشخیص ہوئی، اس لیے اسے آٹزم اور سیکھنے میں مشکلات کے شکار لوگوں کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ میں داخل کروایا گیا۔
سماجی بدنامی
شیماء کے تین بچے ہیں، جن میں 17 سالہ آیا اور 11 سالہ محمد شامل ہیں، جو آٹسٹک ہیں اور دماغی قشرہ کی نامکمل نشوونما کی وجہ سے سے ان کے بصری اعصاب متاثر ہوئے ہیں اور وہ نابینا ہوگئے۔
شیماء اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی آیا گھڑ سواری سے لے کر کسی بھی دوسرے کھیل سے محروم نہ رہیں۔
شیما کہتی ہے کہ آیا چار سال کی تھی جب اس نے آٹزم کی علامات ظاہر کرنا شروع کیں۔ عراق میں کتنے بچوں کو آٹزم ہے اس کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور اکثر تشخیص کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک ماہر نفسیات اور بغداد میں بابل سنٹر فار آٹزم، سپیچ اینڈ لرننگ ڈیفیکلٹیز کی ڈائریکٹر شذا علی خدام کا اندازہ ہے کہ عراق میں تقریباً 20,000 بچے آٹسٹک ہیں۔
لیکن یہ شاید ایک کم تعداد ہے کیونکہ عراق میں معذوری سے جڑی ہوئی سماجی بدنامی کی وجہ سے اکثر والدین نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچوں کو اس طرح کا ’لیبل‘ دیا جائے۔
شذا خدام کہتی ہیں کہ ’فی الحال ایسے متاثرہ بچوں کے گروپ سے حکومت خاص طور پر کوئی باقاعدہ تعاون نہیں کرتی ہے، اور ان کے لیے کوئی سرکاری مراکز یا پناہ گاہیں نہیں ہیں۔‘
جب آیا 11 سال کی تھی، تو اسے ان مراکز میں سے ایک میں ایک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے شیما نے معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا اور اسے اپنے گھر پر ہی تعلیم دینا شروع کی۔
ایک دن جب شیما کو اپنی بیٹی کو سکول سے لینے میں دیر ہوئی تو لڑکی کو سکول والوں نے خود ہی گارڈ کے کمرے میں چھوڑ دیا گیا۔ شیما کا خیال ہے کہ اسے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جب وہ آیا کے جسم کو ہراساں کیے جانے یا جدوجہد کے کسی نشان کے لیے چیک کر رہی تھی، تو وہ کہتی ہیں کہ اس کے چہرے پر تکلیف دکھائی دے رہی تھی اور آیا نے اپنی ماں کا ہاتھ بھی جھٹک دیا تھا۔
’آج تک جب ہم آیا کو گلے لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں دھکیل کر دور چلی جاتی ہے اور اگر ہم اسے اپنے قریب کھینچتے ہیں تو وہ پرے ہو جاتی ہے۔‘
شیما کہتی ہیں کہ کوئی بھی سپیشلسٹ سکول ان کے بچوں کو داخلہ نہیں دے گا، کیونکہ وہ دونوں نابینا اور آٹسٹک تھے۔
انھوں نے انھیں پرائیویٹ سکول بھی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتی ہے، کیونکہ دوسرے والدین جنھوں نے اپنے آٹسٹک بچوں کو داخل کروانے کی کوشش کی تھی، نے کہا کہ کلاس میں ایسے بچوں کا خیر مقدم نہیں کیا گیا تھا۔
شیما کہتی ہیں کہ ’میں خود کو یا اپنے بچوں کو اس صورتحال سے دو چار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب آپ ایک آٹسٹک بچے کو سکول بھیجتے ہیں تو وہ خوشی محسوس کرتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی اس خوشی کے احساس کو کھو دیتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے ان پر کیا گزرتی ہے؟‘
محمد نے پیانو بجانا سیکھ لیا ہے۔
اس کی وجہ سے شیما اور ان کے شوہر نے اپنے بچوں کی نشوونما میں اپنا وقت، محنت اور پیسہ صرف کرنا شروع کردیا۔ شیما نے برطانیہ، سویڈن اور امریکہ کے ماہرین سے رابطہ کیا اور اپنے بیٹے محمد کے لیے بریل ٹیچر بھی رکھی۔
اپنی چھوٹی عمر کے باوجود محمد کا اپنے خاندان کی زندگی میں ایک بڑا کردار ہے، خاص طور پر جب بات ان کی بہن آیا کی ہوتی ہے۔ شیما کہتی ہے کہ ’اگر آیا دکھی ہوتی ہے تو محمد اسے حوصلہ دیتا ہے اور اگر وہ پریشان ہو جاتی ہے تو وہ اسے تسلی دینے جاتا ہے۔‘
تکلیف دہ واقعات
جب شیما اور ان کے گھر والے عوامی مقامات پر جاتے ہی تو لوگ انھیں گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ وہ بچوں کے کھیل کے میدان میں ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں جہاں محمد سلائیڈ پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن سیڑھیاں استعمال نہیں کر رہا تھا۔ کچھ والدین پریشان تھے کہ ان کے بچے بھی ایسا کرنے کی کوشش کریں گے اور خود کو نقصان پہنچائیں گے۔
شیما کہتی ہیں کہ ’ایک ماں کے طور پر میری خواہش ہے کہ ایسے لوگوں کے رویے کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کوئی قانون ہو، خاص طور پر چونکہ ان حالات نے میری ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔ ایسے واقعات کے بعد جب میں گھر جاتی ہوں تو پھر میرا دل نہیں چاہتا کہ میں انہی لوگوں میں دوبارہ جاؤں۔‘
ان باتوں کی وجہ سے شیما کو اپنے بچوں یعنی آیا اور محمد کو بیجز پہننا پڑتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ’مجھے آٹزم ہے، مجھے صبر سے برداشت کرو۔‘
شیما ایک واقعہ بتاتے ہوئے جذباتی ہو گئی کہ کس طرح ایک اور ماں ایک دن محمد کا بیج پڑھنے کے لیے اُس کے پاس آئی۔ اس کے بعد وہ ماں اپنے تین بچوں کے پاس واپس گئی اور ان سے کہا کہ اگر محمد کو کوئی ضرورت ہو تو اُس کی مدد کریں۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ کس طرح بہتری کی جانب بدل رہا ہے۔ شیما نے 2020 میں کووڈ کی وجہ سے پابندیوں کے بعد اپنا انسٹاگرام پیج بنایا تھا۔ شروع میں انھیں تکلیف دہ تبصرے سننے میں ملتے تھے جیسے ’یہ لڑکی اتنی آہستہ کیوں بولتی ہے؟‘
شیما نے ایسے تبصرے نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن پھر انھوں نے دیکھا کہ ان کے فالورز جواب دیتے ہوئے وضاحت کر رہے ہیں کہ ان کی بیٹی آیا کو آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر ہے۔
یہ مختلف قسم کے بچوں کو معمول کی دنیا میں شامل کرنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
شیما اپنی ایک ویڈیو میں بتاتی ہے کہ کس طرح ایک آٹسٹک لڑکی کو اس کی پہلی ماہواری کے دوران رہنمائی کرنا ہے
آٹزم کا ایک پوشیدہ پہلو اس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کے والدین کو درپیش جسمانی اور ذہنی دباؤ ہے۔
محمد کو پیانو سیکھنے کے لیے دو سال درکار تھے اور شیما بات چیت کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے دن میں کئی بار آیا کے سامنے الفاظ دہراتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ ’پہلے مجھے بہت خوف ہوتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے، میرے بچوں کے ساتھ کیا ہوگا، اگر میں ان کے ساتھ نہیں ہوں گی تو ان کا کیا بنے گا؟‘
’یہ خیالات ہر ماں کو ہر روز پریشان کرتے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے، مجھے امید نظر آتی ہے اور حوصلہ ملتا ہے۔ آیا 70 فیصد وقت خود پر اور 90 فیصد محمد پر انحصار کرتی ہے۔‘
آٹسٹک بچوں کے والدین کے لیے شیما کا سب سے بڑا مشورہ ہے کہ وہ ہر حال میں صبر کریں۔ ’جب آپ (لوگوں کو) ڈانٹتے ہیں یا وہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ناراض ہیں تو سمجھیں کہ آپ ناکام ہوگئے ہیں۔ ابھی بھی لوگوں کے رویے میں بہتری لانا مشکل ہو سکتا ہے، کون جانتا ہے کہ ایک یا دو سالوں میں بہتری آجائے۔‘
Comments are closed.