عراق اور شام کے بعد امریکہ کے یمن میں براہِ راست حملے: مشرق وسطیٰ کے ’خطرناک حالات‘ سے نکلنے کے ممکنہ راستے کیا ہیں؟،تصویر کا ذریعہUS CENTRAL COMMAND

  • مصنف, پال ایڈمز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں 13 مقامات پر حوثی جنگجوؤں کے 36 ٹھکانوں پر مشترکہ حملے کیے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے جمعے کے روز شام اور عراق میں 85 اہداف پر حملے کیے۔ امریکہ کی جانب سے یہ ردِعمل امریکی فوجی اڈے پر مہلک ڈرون حملے کے جواب میں آیا ہے۔برطانیہ کے وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے کہا ہے کہ حالیہ حملے ’کشیدگی میں اضافہ نہیں ہیں‘ اور بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے ’غیر قانونی اور ناقابل قبول‘ ہیں۔یمن کے حوثی باغیوں، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے، نے نومبر میں بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا، جس سے عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی تھی۔شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر کا استعمال بند کر دیا ہے ، جو عام طور پر عالمی سمندری تجارت کا تقریبا 15فیصد ہوتا ہے ، اور اس کے بجائے جنوبی افریقہ کے ارد گرد ایک طویل راستہ استعمال کر رہے ہیں۔

حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم ، بہت سے حملہ آور بحری جہازوں کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عراق اور شام پر جمعے کی رات ہونے والے امریکی حملے متوقع طور پر احتیاط سے کیے گئے تھے لیکن یہ گذشتہ ماہ کیے جانے والے حملوں سے کچھ آگے بڑھ کر تھے۔ تاہم یہ ایران پر براہ راست حملہ نہیں تھا۔واشنگٹن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالیہ عدم استحکام کے پیچھے زیادہ تر ایران کی طاقت ملوث رہی ہے۔کیا اس کے بعد اب خطے میں بڑے پیمانے پر تصادم کا امکان زیادہ ہو گیا ہے یا اس صورتحال سے نکلنے کا اور بھی طریقہ ہے کیونکہ امریکہ نے اسے ’خطرناک لمحے‘ سے تعبیر کیا ہے؟اور کیا غزہ میں جنگ بندی اس صورتحال سے نکلنے کے طریقوں میں سے ایک ہے؟سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکیوں نے در حقیقت کِیا کیا ہے۔یہ حملے وسیع پیمانے پر کیے گئے تھے۔ عراق اور شام میں سات مقامات پر 85 اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ حملے ایران نواز ملیشیا اور ان کے ایرانی حمایتیوں، قدس فورسز (ایران کے طاقتور پاسداران انقلاب، آئی آر سی جی) کی صلاحیتوں کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔واشنگٹن اس جنگ میں ہونے والے اپنے نقصانات کا اندازہ خود کرے گا لیکن یہ ممکنہ طور پر جنگجوؤں کی ہلاکت سے زیادہ طبعی طور پر انتشار پیدا کرنے کے بارے میں تھا۔کئی دنوں تک اپنے ارادوں کو ٹیلی گراف کے ذریعے ظاہر کرتے ہوئے واشنگٹن نے قدس فورس اور اس کے مقامی اتحادیوں کو نقصان والے علاقوں سے نکلنے کا وقت دیا تھا۔اس کے باوجود واشنگٹن نے واضح کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ براہ راست تصادم کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن جمعے کی کارروائی 28 جنوری کو اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اس لیے ہوئی کہ آئندہ پھر امریکیوں کو نشانہ نہ بنایا جا سکے۔،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشنعراق کے شہر القائم میں امریکی فضائی حملے کے مقام پر ایک تباہ شدہ عمارت کی تصویر
بہر حال ان حملوں کے مقاصد خالصتاً فوجی کارروائی تک محدود تھے۔اس نے ایران کے بیلسٹک میزائل اور ڈرون پروگراموں میں مبینہ طور پر ملوث کمپنیوں کے ساتھ ساتھ آئی آر جی سی کی سائبر الیکٹرانک کمانڈ کے چھ اہلکاروں پر بھی پابندیاں عائد کیں۔برطانیہ کی جوائنٹ فورسز کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل سر رچرڈ بیرنز نے بی بی سی کو بتایا: ’میرے خیال میں امریکہ نے خطے میں ڈیٹرنس کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کافی حد تک کام کیا ہے۔‘لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ کام کرتا ہے۔تین دن قبل ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیاؤں میں سے ایک کتائب حزب اللہ کے رہنما نے کہا تھا کہ اس نے امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں معطل کر دی ہیں جو اس بات کی ممکنہ علامت ہے کہ ایران پہلے ہی مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔لیکن اب جب کہ امریکہ نے جوابی وار کیا ہے تو کیا تہران اپنی حکمت عملی بدل سکتا ہے؟تہران یونیورسٹی کے پروفیسر محمد مراندی نے سنیچر کی صبح بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’امریکہ نے ایران پر حملہ نہیں کیا، اس لیے ایران کے لیے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘اگرچہ یہ سچ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ایران کو براہ راست نشانہ بنانے کی خواہش کو لگام دے رکھا ہے اس لیے تہران کا جواب بہت کھلا نہیں ہوگا۔اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں اور پراکسیوں، لبنان میں حزب اللہ سے لے کر یمن میں حوثیوں تک کے ذریعے اس کے پاس جواب دینے کے بہت سے آپشنز ہیں۔ اب دونوں فریق اپنے اگلے اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے جمعہ کو کہا کہ امریکی ردعمل ابھی شروع ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری پسند کے وقت اور مقامات کے مطابق جاری رہے گا۔‘

اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے ایک بار پھر سفارتی کوششیں جاری ہیں اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مزید آگے بڑھنے کے فوائد اور اخراجات کا حساب لگا رہے ہیں۔ اس تنازعے کی سونامی جیسی لہریں غزہ جنگ کی شکل میں چار ماہ سے مشرق وسطیٰ کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہیں۔بائیڈن کے نہ تھکنے والے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اکتوبر کے اوائل سے اب تک خطے کے اپنے پانچویں دورے پر جانے والے ہیں۔وہ پانچ دنوں کے دوران وہ سعودی عرب، مصر، قطر، اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کریں گے۔اب تک کا ہر سفر مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی آگ کو بجھانے کی کوشش رہا ہے۔ ہر بار جب امریکی وزیر خارجہ خطے میں آتے ہیں تو لگتا ہے کہ کسی نئے تنازعے کی آنچ کو کم کرنے آئے ہیں۔ایسے میں یہ انتھونی بلنکن کی آگ بجھانے کی صلاحیتوں کا سخت امتحان ہے۔محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ان کے ایجنڈے کا ایک مختصر خلاصہ یہ ہے کہ یہ آپس میں جڑے ہوئے مسائل کے پیچیدہ جالے کی طرف اشارہ کرتا ہے جن سے وہ نمٹ رہے ہیں۔ان میں غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد، بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی حفاظت، خطے میں امریکی اہلکار اور ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے یکساں سلامتی‘ جیسے مسائل شامل ہیں۔یہ ایک مشکل فہرست ہے، لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس میں مواقع بھی ہیں۔پچھلے ہفتے اردن میں امریکی اڈے ٹاور-22 کے متعلق پریشانی بڑھ گئی تھی جہاں تین امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ پیرس سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی، مصری، اسرائیلی اور قطری حکام کی ایک میٹنگ میں غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی اور دیگر یرغمالیوں کی رہائی کا بندوبست کرنے کی طرف پیشرفت ہوئی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ ابھی بھی ’اہم خلا‘ موجود ہے۔نتن یاہو خود ایک معاہدے کے خیال پر ٹھنڈا پانی ڈالتے نظر آئے جس میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے باہر اسرائیلی افواج کی دوبارہ تعیناتی شامل ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنغزہ میں ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت جاری ہے
زیادہ تر مبصرین اس بات پر متّفق ہیں کہ اس طرح کی ڈیل نتن یاہو حکومت کو گرا سکتی ہے جس کی وزیر اعظم کی سخت گیر کابینہ کے وزراء کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے عہدیدار بھی منقسم ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ کے اندر گروپ کے رہنما لڑائی کے ابتدائی چھ ہفتے کے وقفے کو قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن دیگر ممالک کے رہنما مستقل جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ابھی جہاں صورتحال ہے وہاں کوئی معاہدہ نہیں ہے لیکن مذاکرات بھی ختم نہیں ہوئے۔ خطے میں مختلف علاقوں میں دورے کرتے ہوئے انتھونی بلنکن شاید پیشرفت کی امید کر رہے ہیں۔غزہ میں جنگ بندی تقریباً یقینی طور پر خطے میں آگ کو کم کر دے گی جو ابھی ہوا کا کام کر رہی ہے۔یمن میں حوثیوں نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ ختم ہوتی ہے تو وہ بحری جہازوں پر حملہ کرنا بند کر دیں گے۔اگر جنگ بندی ہو جاتی ہے تو لبنان میں حزب اللہ کے پاس بھی سرحد پار حملے کرنے کی کم ہی وجہ رہ جائے گی۔سرحد کے دونوں طرف کی عوام اپنے علاقوں میں گھروں کو واپس جانا پسند کریں گے جو حملے کے تبادلوں کی وجہ سے متاثر ہیں۔شام اور عراق میں غزہ کی کشیدگی سے پہلے ہی امریکی فوجیوں پر حملے ہو رہے تھے لیکن غزہ کی جنگ کی وجہ سے دنوں ملکوں میں کشیدگی کو ہوا ملی ہے۔ بظاہر غزہ میں جنگ بندی سب کے مفاد میں ہے۔اسرائیلی مغویوں کو آزاد کیا جائے، غزہ کے تباہ حال فلسطینی عوام کو ریلیف دی جائے، طویل المدتی (اور شاید مستقل) لڑائی کا اختتام اور خطے میں کشیدگی میں بڑی کمی، کون یہ بات پسند نہیں کرے گا؟کاش یہ اتنی آسان بات ہوتی۔بنیامین نتن یاہو اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔امریکہ اور ایران کا خطے میں اپنے مفادات کے لیے مقابلہ ہے۔حزب اللہ، حوثیوں اور ایران کی حمایتی عسکریت پسندوں کے عراق اور شام میں اپنے مقامی خدشات ہیں۔انتھونی بلنکن کی فہرست میں بڑا منصوبہ ہے، ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ہمیشہ کی سلامتی‘ لیکن ابھی کے لیے یہ بہت دور لگ رہا ہے۔اس سب کی شروعات غزہ میں جنگ بندی کا ہونا ہے۔ امریکہ نے وہ کر دکھایا ہے جو اس نے کہا تھا وہ کرے گا اور خبردار کیا ہے کہ آنے والے وقتوں میں مزید بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}