وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں اگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آئی تو نمبر گیم کیا ہوگا؟
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن نے حکمران جماعت کے 24 ارکان کی حمایت ساتھ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں حکومتی اتحادیوں کے ساتھ بھی معاملات طے پانے کا تاثر دے رہی ہیں، ایسے میں تحریک عدم اعتماد آئی تو نمبر گیم کیا ہوگا؟
قومی اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے، حکمران اتحاد کے پاس کل 179 ارکان موجود ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 155، ایم کیو ایم 7، ق لیگ 5، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جی ڈی اے 3 ، آزاد ارکان 2، جمہوری وطن پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کے 1،1 ارکان حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کو قومی اسمبلی میں 162 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جمع تفریق کے بعد حکومت اتحاد کو 17 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تفصیل کچھ یوں ہے، ن لیگ 84، پی پی 56، متحدہ مجلس عمل 15، بی این پی مینگل 4، آزاد ارکان 2 اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔
اس نمبر گیم میں اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اسے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے 24 ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کو 16، پیپلز پارٹی کو 6 اور جے یو آئی ف کو 2 حکومتی ارکان نے حمایت کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
اگر یوں ہو گیا تو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومتی ارکان کی تعداد 155اور اپوزیشن ارکان کی تعداد 186ہو سکتی ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے حکومت بنانے کے لیے قومی اسمبلی میں کتنے ارکان کی حمایت چاہیے؟ تو اس کا جواب 172 ارکان کی حمایت ہے۔
اب ذرا اک نظر آئین پر بھی کہ اگر حکومتی جماعت کا کوئی رکن وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے گا تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟
آئین کہتا ہے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے والے ارکان بس چند دن میں نا اہل ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن اتحاد نے حکومتی اتحادی جماعتوں کو بھی ساتھ ملانے کا پلان بنا رکھا ہے، ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی سے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔
ان تینوں جماعتوں کے ووٹوں کی تعداد 17 بنتی ہے، اگر اتحادی جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت اپوزیشن کا ساتھ دے گی تو اس کے خلاف وفاداری تبدیل کرنے کے باعث آئینی یا قانونی طور پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
Comments are closed.