وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر کا کہنا ہے کہ انصاف کے تقاضے سامنے رکھیں تو عدلیہ کے علاوہ دوسرے اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ ماضی میں کئی ججز نے آرام سےکہہ دیا کہ ہم استعفیٰ دے دیتے ہیں، اس طرح جج صاحبان کو تمام مراعات بدستور ملتی رہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ احتساب سے متعلق پاکستان کے آئین میں کوئی ابہام نہیں، بد عنوانی کے مرتکب پارلیمنٹیرینز کا احتساب نیب، الیکشن کمیشن میں ہوتا ہے، بد عنوانی کے کئی معاملات مختلف عدالتوں میں بھی جاتے ہیں، بدعنوانی کرنے والے کو احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ججز خود احتسابی کرتے ہیں تو باقی اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، جج ریٹائرڈ بھی ہوجائیں تب بھی ان کے خلاف کیس چل سکتا ہے، پروسیڈنگ ہوسکتی ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا ریٹائرڈ ہوئے یا نہیں۔
عرفان قادر نے مزید کہا کہ نیب بھی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا احتساب کرتا ہے، جج صاحبان مختلف اداروں کو کنٹرول کریں آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لاہور کے ایک جج کے بارے میں سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، اس جج کے صرف سفری اخراجات 6 کروڑ روپے کے قریب ہیں، ایسے معاملات کو التوا میں ڈالنا سپریم جوڈیشل کونسل کا بھی اختیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ جج صاحبان کے بارے میں آڈیو لیکس بھی آئیں، آڈیو لیکس سے متعلق جوڈیشل کمیشن بنایا گیا، مرضی کا بینچ بنا کر آڈیو لیکس کمیشن کو بھی فارغ کیا گیا، صدر اور گورنرز کے سوا کسی کو استثنیٰ نہیں، کوشش کرتے رہیں گے کہ سب پر قانون کا اطلاق یکساں ہو۔
عرفان قادر نے یہ بھی کہا کہ ادارے میں کچھ لوگ ہیں جو لگ رہا ہے سب کنٹرول کر رہے ہیں، ماضی میں بہت سے چیف جسٹس صاحبان نے اپنی مرضی کے بینچ بنائے، قانون کو بہتر بنایا گیا کہ زیادہ جج بینچ کی تشکیل میں حصہ لیں، دیکھنا ہے کہ جج صاحبان سیاسی معاملات میں نہ الجھیں، اچھے قوانین بنائے گئے تاکہ جج لوگوں کو انصاف فراہم کرسکیں۔
Comments are closed.