عدالتی اصلاحات کا منصوبہ جو اسرائیل میں بحران کا سبب بنا
انھیں اسرائیل کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہروں میں سے ایک کہا جا رہا ہے
- مصنف, رافی برگ
- عہدہ, مشرق وسطیٰ کے مدیر، بی بی سی نیوز
اسرائیل کی حکومت کی جانب سے عدالتی نظام میں اصلاحات کے منصوبے کی شدید مخالفت کے بعد یہ ملک اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحرانوں میں سے ایک کی لپیٹ میں ہے۔
ہم نے مختصر انداز میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل میں اس وقت کیا ہو رہا ہے۔
اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے؟
سال کے آغاز سے حکومت کے اصلاحات کے منصوبے کے خلاف بڑے ہفتہ وار مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ اس احتجاج میں تیزی آئی، جس میں ملک بھر کے گاؤں اور شہروں، خاص طور پر دارالحکومت تل ابیب، میں لاکھوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اصلاحات کا منصوبہ ختم کریں اور استعفیٰ دیں۔ ان کے سیاسی مخالفین ان مظاہروں میں متحرک رہے ہیں جبکہ اصلاحات کی مخالفت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کی جا رہی ہے۔
خاص طور پر اسرائیل کی مسلح افواج، ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے ریزوو اہلکار، کی ایک نمایاں تعداد ان اصلاحات کے خلاف ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے انکار کر کے احتجاج کر رہے ہیں اور اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اس بحران سے ملک کی سکیورٹی خطرے میں ہے۔
اسرائیل کے شہریوں کو غصہ کس بات پر؟
نتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اصلاحات سے ملک کی جمہوریت اور عدالتی نظام کمزور ہوگا۔ ان کے مطابق تاریخی اعتبار سے اسرائیل کے عدالتی نظام نے حکومت کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے سے روکا ہے۔
حکومت کی موجودہ شکل اور وزیر اعظم کی بھی کڑی مخالف کی جا رہی ہے اور اسے تاریخ کے سب سے زیادہ دائیں بازو کے ساتھ جھکاؤ والا دور کہا جا رہا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات سے نتن یاہو محفوظ ہو جائیں گے جن پر بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان اصلاحات کے بعد حکومت بلا رکاوٹ من چاہے قوانین منظور کروا لے گی۔
اسرائیل میں کون سی عدالتی اصلاحات زیر بحث ہیں؟
یہ اصلاحات حکومت کے اختیارات بمقابلہ عدالتی اختیارات کے حوالے سے ہیں۔ ان میں عدالتوں کی جانب سے حکومت کے فیصلے کالعدم قرار دینے کا جائزہ لیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کی کافی دیر سے ضرورت محسوس کی گئی تاہم اس کے کچھ حصوں پر لوگ تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔
حکومت کے منصوبے میں یہ اصلاحات شامل ہیں:
- سپریم کورٹ کا قوانین کا جائزہ لینے کا اختیار کمزور ہوجائے گا۔ کسی ایک پارلیمان میں سادہ اکثریت سے عدالتی فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاسکے گا۔
- سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی میں حکومت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ اس کمیٹی میں حکومتی نمائندگی بڑھ جائے گی جو ججوں کی تعینات کرتی ہے۔
- وزرا اپنے قانونی مشیران (جنھیں اٹارنی جنرل کی ہدایت ملتی ہے) کے مشورے ماننے کے پابند نہیں ہوں گے۔ فی الحال انھیں قانون کے تحت ایسا کرنا پڑتا ہے۔
ان اصلاحات میں سے ایک کو منظور کر کے قانون بنا لیا گیا ہے۔ اس میں اٹارنی جنرل کا یہ اختیار ختم کر دیا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے۔
کیا حکومت گھٹنے ٹیک دے گی؟
نتن یاہو نے اب تک مزاحمت دکھائی ہے اور مظاہروں میں شریک رہنماؤں پر حکومت گرانے کی کوششوں کا الزام لگایا ہے۔
حکومت نے اصلاحات میں تصحیح کی تجاویز دی ہیں جنھیں حزب اختلاف نے مسترد کیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات سے قبل اس منصوبے کو پوری طرح روکنا چاہتے ہیں تاہم حکومت صدر کی جانب سے دیے گئے سمجھوتے کو مسترد کر چکی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے منتخب ہوئے اور انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ عدلیہ میں اصلاحات لائیں گے۔ اسے روکنا، ان کی رائے میں، غیر جمہوری ہو گا۔
حکومت کا خیال ہے کہ عدلیہ ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہے اور نئے ججوں کی تعیناتی کے نظام میں اس کی نمائندگی کم ہے۔
ہر دن کے ساتھ حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ نتن یاہو کی حکومت میں وزیر دفاع نے بھی عدالتی نظام میں اصلاحات کے خلاف بات کی ہے جس پر وزیر اعظم نے انھیں برطرف کر دیا ہے۔
Comments are closed.