عثمانی فوج کا طاقتور دستہ جس نے اپنے ہی تین سلطان معزول اور قتل کیے،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق
  • 43 منٹ قبل

سلطنت عثمانیہ کے 16ویں سلطان، عثمان دوم، حملہ آور دس جلادوں میں سے تین کو پچھاڑ چکے تھے جب ایک پھندے کا شکار ہوکر گِر گئے اور ان میں سے ایک نے فوطے دبا کر انھیں مار دیا۔ترک تاریخ دان اکرم بُغرا اِکِنچی کہتے ہیں کہ سنہ 1622 میں یہ پتا چلنے پر کہ بڑی تعداد میں ان فوجیوں کا سِرے سے وجود ہی نہیں تھا جن کی تنخواہ ہر تین ماہ بعد بانٹنے کے لیے افسروں کو دی جاتی تھی، سلطان عثمان دوم نے اصلاحات کا سوچا تو فوج نے بغاوت کر دی۔فوج نے بغاوت کرتے ہوئے وزیر اعظم اور صدر خواجہ سرا کو قتل کر کے سلطان کے چچا اور سابق سلطان مصطفیٰ کو تخت پر بٹھا دیا اور پھر ان (عثمان) کی جان لے لی۔عثمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی سلطان کو بغاوت کے ذریعے معزول کر کے قتل کیا گیا۔ مگر اس سے بھی زیادہ یہ اہم بات تھی کہ بغاوت کرنے والے ان کے خاص محافظ تھے۔

یہ محافظ ینی چری تھے۔ ترکی زبان کی اس اصطلاح کا مطلب ہے نئی فوج۔ اردو میں انھیں جان نثار کہا گیا اور انگریزی میں جانیساریز (Janissarie)۔یہ نام اس باقاعدہ پیادہ فوج کو دیا گیا تھا جسے 14ویں صدی میں عثمانی ترکوں نے تشکیل دیا تھا۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق اس فوجی دستے کی ترتیب و نظام کی ابتدا عثمانی سلطنت کے بانی سلطان عثمان کے بیٹے سلطان اورخان (اورحان) کے زمانے سنہ 1326 سے ہوئی۔ اس کی تنظیم میں ان کے بھائی اور وزیر علا الدین اور شیخ ادب علی کے برادرِ نسبتی قرہ خلیل چدرلی (جندرلی) شریک تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesلیکن انسائیکلوپیڈیا برِٹینیکا اور بعض تاریخی کتابیں ینی چری اور مفتوحہ علاقوں کے بچوں کو غلام اور پھر مسلمان بنا کر اس فوج میں بھرتی کرنے کے ’دیوشیرمہ‘ نظام کی ابتدا سلطان اورحان کے جانشین مراد اول کے دور(1360 سے 1389 تک) میں دیکھتے ہیں جب عثمانی سلطنت تیزی سے پھیلی اور اس کے استحکام کے لیے نئے انتظامی اقدامات لیے گئے۔بہر حال یہ دونوں ادوار چودھویں صدی کے ہیں اور یہی وہ وقت ہے کہ جب یہ ’پہلی منظم اور باقاعدہ پیدل فوج‘ مرتب کی گئی۔دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ایک درویش حاجی بکتاش کے درویشی سلسلے میں شامل سمجھی جانے والی اس فوج کے ارکان سر پر سفید نمدے کی ٹوپی پہنتے جس کی پچھلی جانب کپڑے کا ایک ٹکڑا پیوست ہوتا۔ مورخین کے مطابق یہ ٹکڑا مرشد کے آستین کی علامت تھا جو مرید کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرتے وقت اس کی پشت سے چھوتی تھی۔

فتوحات

1453 میں قسطنطنیہ پر قبضہ، 1514 میں جنگ چالدران میں صفوی ایرانیوں کو شکست دے کر اناطولیہ کے مشرقی حصے پر قبضہ اور 1516 میں مرج دابق نامی لڑائی جس میں عثمانیوں نے مملوکوں سے حلب و دمشق وغیرہ چھین لیے، سب میں ینی چری کا اہم حصہ تھا۔تھتھال لکھتے ہیں کہ ’جنگوں میں ینی چری اپنی مہارت اور بہادری سے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا کرتے تھے، اسی وجہ سے یورپی باشاہ ینی چری کو ترکوں کا خفیہ ہتھیار کہتے تھے۔‘

کھانے سے جڑے عہدے، کھانے سے جڑی بغاوت

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesینی چری کھانے کی ایک مضبوط ثقافت سے جڑے ہوئے تھے۔ گیلیس فائنسٹائن کی کتاب ’فائٹنگ فار اے لِوِنگ‘ کے مطابق ینی چری کور کو ’اوجاق‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب چولہا بھی تھا اور آتش دان بھی۔ان کی ٹوپی پر بِلے کے طور پر ایک چوبی (لکڑی) کا چمچا بنا ہوتا تھا۔ان کا سب سے بڑا مقدس نشان کانسی کا ایک بہت بڑا کڑھاؤ تھا۔ اسے قزان کہتے تھے۔ کھانے اور ضروری مشاورت کے لیے وہ اس کے گرد جمع ہوتے۔فوج کے اس دستے کے افسروں کے عہدوں کے نام مطبخ شاہی (شاہی کچن) کے مختلف شعبوں سے ماخوذ ( لیے گئے) تھے۔ مثلاً چورباجی باشی (شوربہ بنانے والوں کا افسر) اور آشچی باجی (خانسامانِ اعلیٰ)۔انھیں سلطان کے محل سے کافی مقدار میں کھانا ملتا تھا، جیسے گوشت کا پلاؤ، سوپ اور زعفران کی کھیر۔ رمضان کے مہینے میں یہ فوجی محل کے باورچی خانے کی طرف ایک قطار بناتے تھے جسے ’بکلاوہ جلوس‘ کہا جاتا ہے۔اس میں وہ سلطان کی طرف سے تحفے کے طور پر مٹھائیاں وصول کرتے تھے۔سلطان سے کھانا قبول کرنا ینی چریوں کی وفاداری کی علامت تھا۔ تاہم ان کا کھانے کی پیشکش مسترد کرنا سلطان کے لیے مصیبت کی آمد کا اشارہ تھا۔ اگر ینی چری سلطان سے کھانا قبول کرنے میں ہچکچاتے تو یہ بغاوت کے آغاز کا اشارہ تھا۔قزان کو الٹا کر دینا بغاوت کی علامت تھی۔ آگے چل کر جب سلطان محمد رابع (چوتھے) کے عہد (1641-1687) میں دیوشیرمہ کا یہ دستور متروک ہو گیا تو اسے بڑی کثرت سے الٹا کیا جانے لگا۔‘

اہمیت اور ارتقا

ینی چری شروع میں ماہر تیر اندازوں کا دستہ تھا۔ لیکن 1440 کی دہائی میں بارود کی دستیابی پر انھوں نے دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج کے طور پر اس کا استعمال کیا۔ سپہ سالار ینی چری آغاسی کہلاتا تھا۔وہ محکمہ پولیس کا بھی افسر اعلیٰ ہوتا تھا اور پائے تخت میں نظم و نسق قائم رکھنے کا ذمہ دار بھی۔’جدید مشرق وسطیٰ کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ 15ویں اور 16ویں صدی میں انھیں یورپ بھر میں بہترین تربیت یافتہ اور موثر ترین فوجی یونٹوں میں سے ایک تسلیم کیا گیا۔ان کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ریاست کے باقی شہریوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔ شادی کی اجازت 40 سال کی عمر کے بعد ملتی۔ یہ صرف مونچھیں رکھ سکتے تھے، داڑھی نہیں۔ینی چریوں کو سزا (سزائے قید، تلوؤں پر ڈنڈے مارنا اور سزائے موت) صرف ان کے اپنے افسر ہی دیا کرتے تھے۔ سزائے موت رات کو خفیہ طور پر دی جاتی۔ لاش کے پاؤں میں ایک توپ کا گولا باندھ کر اسے آبنائے باسفورس میں پھینک دیا جاتا تھا اور ایک توپ کا گولا چھوڑ کر اعلان کیا جاتا کہ حکمِ سزا کی تعمیل کر دی گئی ہے۔خالد تھتھال کی تحقیق ہے کہ انھیں ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے نقد تنخواہیں دی جاتی تھیں۔’تنخواہوں کی ادائیگی کے وقت سلطان خود ینی چری کے لباس میں چھاؤنی آتے اور خود بھی قطار میں لگ کر تنخواہ وصول کرتے تھے۔ جنگ میں ینی چری دستوں کی قیادت ہمیشہ سلطان خود کرتے۔‘’1402 میں امیر تیمور نے عثمانی سلطنت کے ماتحت قبائل کو ساتھ ملا کر جب بایزید اول کو جنگ انقرہ میں شکست دے کر انھیں زندہ گرفتار کیا تو یہ تب ہی ممکن ہوا تھا جب ینی چری کا دستہ ختم ہو چکا تھا۔‘جیسے جیسے ینی چری اپنی اہمیت سے واقف ہوتے گئے، وہ ایک بہتر زندگی کی خواہش کرنے لگے۔ سنہ 1481 میں سلطان محمد ثانی کی دوبارہ تخت نشینی کے موقع پر ینی چریوں کی شورش کو بڑی سختی سے کچل دیا گیا تھا۔سلطان کی تخت نشینی کے وقت جو بخشیش فوج میں تقسیم کی جاتی تھی اس کے مطالبے کی آڑ میں فوجی بغاوتیں بکثرت ہونے لگیں۔ینی چریوں نے پہلی بغاوت تنخواہوں میں اضافے کے لیے 1449 میں کی جس میں ان کے مطالبات تسلیم کیے گئے۔اس کے بعد وہ ہر نئے سلطان سے انعامات اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images17ویں صدی کے اوائل تک ینی چریوں کا اثر و رسوخ اتنا تھا کہ وہ حکومت پر حاوی ہو گئے۔ وہ بغاوت کر سکتے تھے، پالیسی بنا سکتے تھے اور فوج کے ڈھانچے کو جدید بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ وہ زمیندار اور تاجر بھی بن گئے۔جب چنی چری عملی طور پر سلطان سے پیسے بٹور سکتے تھے اور کاروباری اور خاندانی زندگی نے جنگی جوش کی جگہ لے لی تو 1683 میں ویانا کی دوسری جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ کی شمالی سرحدیں آہستہ آہستہ جنوب کی طرف سکڑنا شروع ہو گئیں۔کوئی بھی سلطان جس نے ان کی حیثیت یا طاقت کو کم کرنے کی کوشش کی اسے یا تو فوراً مار دیا گیا یا معزول کر دیا گیا۔سلطنت عثمانیہ کی پوری تاریخ میں کئی ینی چری بغاوتیں ہوئیں۔سلطان عثمان ثانی کے قتل کے بعد ینی چری سیاست میں دخیل ہو گئے۔ سلاطین ان سے دہشت زدہ رہنے لگے اور وزرائے اعظم کا تقرر و معزولی ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ فتنہ پردازوں کے آلہ کار بن گئے۔ان تمام بدعنوانیوں سے صرف مراد رابع کا عہد (1622-1640) محفوظ رہا کیوں کہ انھوں نے ینی چریوں میں نئے سرے سے نظم و نسق قائم کر دیا تھا۔آدم زیدان کے مطابق ابراہیم کے دور حکومت (1640-1648) میں عثمانی سلطنت جنگ، بدانتظامی اور بغاوت سے کمزور ہو گئی تھی۔’انھیں آٹھ اگست 1648 کو علما کی حمایت سے ینی چریوں نے بغاوت کے ذریعے معزول کیا اور 10 دن بعد پھانسی دے دی۔‘تھتھال لکھتے ہیں کہ ترکی کی سمٹتی سلطنت اور عسکری کمزوری سے نپٹنے کے لیے سلطان سلیم سوم نے نظامِ جدت کے تحت جدید یورپی اسلحے اور جنگی طریقوں کے مطابق نئی فوج تشکیل دینا چاہی۔ لیکن ینی چری اپنی معاشی و عسکری قوت کی وجہ سے تمام اصلاحات کی مخالفت کر رہے تھے۔حتیٰ کہ جب ینی چریوں کو یورپی طرز کی فوجی وردی پہننے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے حکم ماننے کی بجائے بغاوت کر دی۔ینی چریوں نے شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی سے فتویٰ دلوایا جس میں یورپی طرز پر فوجوں کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیر کیا گیا۔ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو بادشاہی کے لائق نہیں چنانچہ 1807 میں سلیم کو معزول کرکے قتل کر دیا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

ینی چریوں کا زوال

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ینی چری کی تنظیم میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ سلطان مراد ثالث نے سنہ 1582 میں اوجاق کو مجبور کیا کہ وہ قواعد و ضوابط اور آغا فرہاد کے استعفے کے باوجود ان بازی گروں اور پہلوانوں کو فوج میں بھرتی کرے جنھوں نے شہزادے (بعد میں سلطان محمد ثالث) کی رسمِ ختنہ کی تقریب میں لوگوں کو محظوظ کیا تھا۔اس وقت سے لے کر ہر قسم کے لوگ اس فوج کی مراعات سے بہرہ اندوز ہونے کی غرض سے اس میں رشوت دے کر یا اپنے سرپرستوں کے بل بوتے پر بھرتی ہونے لگے۔ دیوشیرمہ کو 1638 میں ختم کر دیا گیا۔ شادی کی پابندی نہ رہی۔ ینی چریوں کے بچوں کو بھی ملازمت ملنا شروع ہو گئی۔لیکن یونانی مورخ دیمتری کٹسکیس نے لکھا ہے کہ بہت سے بوسنیائی مسیحی خاندان دیو شیرمہ کی تعمیل کے لیے تیار تھے کیونکہ اس سے سماجی ترقی کا امکان تھا۔ تھتھال لکھتے ہیں کہ ینی چری کے غلام ہونے کی شرط کے خاتمے کے بعد ان کی عزت و وقار میں مزید اضافہ ہوا۔’یوں مسلم ترک خاندانوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا بیٹا بھی ینی چری میں بھرتی ہو۔ ترک اشرافیہ نے بھی اپنے بچے ینی چری میں بھرتی کروانا شروع کر دیے۔ نظم و ضبط اور کٹھن تربیت کا معیار کم ہونے سے ان کا حربی معیار شدید متاثر ہوا۔‘ینی چری نے درباری سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا، یوں معاشی اور سماجی بدحالی کے دور میں ینی چری نے بہت زیادہ مراعات حاصل کر لیں۔ ینی چری کے افسران نے اس ٹیکس سے بھی اِستِثناحاصل کر لیا جو مسلمان آبادی کو دینا پڑتا تھا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے ان کی چھوٹ کی وجہ سے باقی آبادی انھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی۔جیسے جیسے ینی چری فوجی دستے (کور) کی طاقت بڑھتی گئی سلطنت کمزور ہوتی گئی۔ایک بوسنیائی سرب ینی چری، سوکولو محمت پاشا، تو وزیر اعظم بھی بنے، تین سلطانوں کی خدمت کی اور 14 سال سے زائد عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے اصل حکمران رہے۔جہاں ینی چری کے افسران بہت امیر ہوتے گئے، وہیں نچلے درجے کے فوجیوں کو بسا اوقات تنخواہ تک نہ ملتی تھی۔ یوں ینی چری کے نچلی سطح کے لوگوں نے دستکاریوں اور تجارت کی طرف توجہ مبذول کر لی۔ بعض لوٹ کھسوٹ کرکے گزر اوقات کرنے لگے۔معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے ینی چری کے تعلقات شہری آبادی سے قائم ہوئے اور ان کی سلطان سے وفاداری میں پہلے جیسی گرم جوشی نہ رہی۔بہت سے لوگ سپاہی نہیں تھے لیکن پھر بھی سلطنت سے تنخواہ وصول کرتے تھے۔ کسی بھی ریاستی عمل کو رد کرسکتے تھے۔ سنہ 1740 میں جب تنخواہ دار عہدوں کی آڑھت جاری ہو گئی اور ہر شخص بآسانی خرید و فروخت کرنے لگا تو ینی چریوں کی زبردست فوجی طاقت کی تباہی مکمل ہو گئی۔جارج نفسیگر لکھتے ہیں کہ ینی چریوں کی تعداد 1575 میں 20,000 سے بڑھ کر تقریباً 250 سال میں 1826 تک 135,000 ہو گئی تھی۔18ویں صدی کے وسط تک انھوں نے بہت سے کاروبار شروع کر لیے۔ بہت کم لوگ بیرکوں میں رہتے رہے۔ان میں سے بہت سے منتظم اور عالم بن گئے۔ ریٹائرڈ ینی چریوں کو پنشن ملتی تھی اور ان کے بچوں کی بھی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔

ینی چریوں کا سلطان کے ہاتھوں خاتمہ جسے واقعہ خیریہ کا نام دیا گیا

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسلطان محمود ثانی نے ینی چری دباؤ سے تنگ آکر باقاعدہ طور پر ایک فوج مرتب کی جسے اشکنجی کہتے تھے اور اس طرح اس لقب کو تازہ کیا جو ینی چریوں کو جنگی خدمت کے وقت دیا جاتا تھا۔لیکن باقاعدہ قواعد کا اعلان ہوتے ہی 15 جون 1826کو ایت میدان میں جو بارکوں کے عین وسط میں واقع تھا ینی چری نے بغاوت کر دی۔کیرولین فنکل کے مطابق سلطان ایک سبک سیر کشتی میں سوار ہو کر سرائے چلے گئے۔ علما سے مشورہ کر کے اور اپنی مسلمان رعایا کو جمع کرکے جو ینی چریوں کی لوٹ کھسوٹ سے تنگ آچکی تھی ان کے قتال پر اکسایا۔ترک مورخین کے مطابق ینی چریوں کے انسداد کی فوج میں وہ مقامی باشندے بھی شامل تھے جو برسوں سے ینی چریوں سے نفرت کرتے تھے۔’بڑا پھاٹک بند کر دیا گیا تھا لیکن تھوڑی ہی دیر میں یہ توپ کے گولے سے پاش پاش ہو گیا۔ بیرکوں کو آگ لگا دی گئی اور باغیوں کو مغلوب کر لیا گیا۔ باب عالی کے اجلاس کے فیصلے کی سلطان نے توثیق کر دی اور ایک شاہی فرمان جاری ہو گیا کہ ینی چریوں کی مکمل بیخ کنی کردی جائے۔‘نوئل باربر نے لکھا ہے کہ بیرکوں میں توپ خانے سے آگ لگنے کے نتیجے میں 4,000 ینی چری ہلاک ہو گئے۔ قسطنطنیہ (سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت اور ینی چری مرکز) کی سڑکوں پر ہونے والی شدید لڑائی میں زیادہ لوگ مارے گئے۔ زندہ بچ جانے والے یا تو بھاگ گئے یا قید کر دیے گئے، سلطان نے ان کا مال ضبط کر لیا۔جیسن گڈون اور پیٹرک کنروس نے لکھا ہے کہ ینی چری رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا۔ چھوٹے ینی چریوں کو یا تو جلاوطن کر دیا گیا یا قید کر دیا گیا۔بہت سے عام ینی چریوں نے، خاص طور پر صوبوں میں بغاوتیں شروع کیں اور خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ بلقان کے مسیحی قسطنطنیہ سے بھیجی گئی نئی ترک فوجوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ کچھ ینی چری دھیمے رہ کر اور عام نوکریاں کر کے بچ گئے۔تقریباً 100 دیگر ینی چری سسٹرن آف فلوکسینوس کی طرف بھاگے جہاں ان میں بہت سے ڈوب گئے۔ بیکتاشیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور ان کے پیروکاروں کو پھانسی یا جلاوطن کر دیا گیا۔1826 کے آخر تک قید کیے گئے ینی چریوں کو تھیسالونیکی قلعے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ جلد ہی ’بلڈ ٹاور‘ کہلانے لگا۔ ہزاروں کی تعداد میں ینی چری مارے گئے، اور یوں یہ ایلیٹ نظام اپنے اختتام کو پہنچا۔سلطان کی جانب سے ’واقعہ خیریہ‘ قرار دیے گئے اس واقعے کے بعد سلطنت عثمانیہ اس قابل ہو گئی کہ یورپی معیار کے مطابق باقاعدہ فوج قائم کر سکے۔محمود ثانی نے سلطان کی حفاظت کے لیے ینی چریوں کی جگہ ایک نئی جدید کور (فوجی دستے)، عساکرِ منصورِ محمدیہ قائم کی البتہ اس واقعے کے بعد سلطنت عثمانیہ کی فوجی پوزیشن میں عارضی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روسی سلطنت نے عثمانیوں کو سات اکتوبر 1826 کو اککرمین کنونشن قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جس میں عثمانیوں کو روسیوں کو شکست آمیز رعایتیں دینا پڑیں۔سلطان محمود ثانی کے کنونشن سے انکار نے روس-ترک جنگ (1828-1829) کو جنم دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}