
معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت دنیا میں نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، خوب رہے، شہرت کی بلندیاں بھی دیکھیں اور یکے بعد دیگرے تنازعات میں بھی گھرے رہے۔
عامر لیاقت بھی ان لوگوں میں سے تھے، جن کے متعلق یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ آیا، اس نے دیکھا اور وہ چھا گیا، زمانہ طالب علمی کا فن خطابت اور گفتگو میں مہارت ساری زندگی ان کے کام آئی لیکن وہی انہیں تنازعات کی طرف بھی لے گئی۔
وہ پاکستان کے مقبول ترین ٹی وی چینل جیو پر پروگرام ’عالم آن لائن‘ پر نمودار ہوئے اور مقبولیت کے عروج پر پہنچے، اسی دوران وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، انہیں وزیر مملکت برائے مذہبی امور کی ذمہ داری دی گئی۔
عامر لیاقت اس وقت کے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ ترین فرد مانے جانے لگے، پھر ٹیلی ویژن کی رمضان ٹرانسمیشن کو کامیابی سے چلانا بھی ان کی پہچان بنا اور یہی سب باتیں ان کی مقبولیت کو چار چاند لگاتی چلی گئیں۔
عامر لیاقت جوانی میں ہی شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچے وہ کم ہی افراد کو نصیب ہوتی ہے، لیکن لگتا ہے اس شہرت کا سنبھالنا ہی ان کے لیے مشکل ہوگیا، مقبولیت اور مداحوں میں روز ہوتے اضافے کے خمار نے ان کی زندگی کو بھی نیا رخ دے دیا۔
ایک طرف ان کی نجی اور ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے، پہلی کے بعد دوسری اور پھر تیسری شادی نے گھریلو تنازعات کو جنم دیا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ نامناسب باتوں نے بھی ان کی شہرت کو زبردست نقصان پہنچایا خاص کر تیسری شادی کے بعد کی کچھ باتوں نے۔
اس طرح عامر لیاقت کو جو شہرت نصیب ہوئی وہ اسے با وقار انداز میں برقرار نہ رکھ سکے اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
Comments are closed.