چین ایران سے تیل کیوں خریدتا ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
’چائے کی کتیلی‘ جیسے چھوٹے کارخانے
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران اور چین نے گزشتہ برسوں کے دوران پابندیوں سے بچنے کے لیے تیل کی تجارت کا ایک پیچیدہ نظام ترتیب دیا ہے۔اٹلانٹک کونسل کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے اکنامک نیشنل پالیسی مایا نکول کا کہنا ہے کہ ’اس تجارتی نظام کے اہم ستونوں میں ’چائے کی کتیلی‘ جیسے چھوٹے اور خودمختار تیل صاف کرنے والے کارخانے، گمنام ٹینکروں کا بیڑہ اور چین کے ایسے علاقائی بینک ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ جانا نہیں جاتا۔’ٹی پاٹ‘ یا ’چائے کی کتیلی‘ جیسی ریفائنریاں ایران کے تیل کو صاف کرتی ہیں اور یہ ایسے نیم خودمختار کارخانے ہیں جو بڑے سرکاری کارخانوں کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں۔ہمایوں نے وضاحت دی کہ ’یہ ایک تجاری نام ہے کیوں کہ بنیادی سہولیات رکھنے والی یہ ریفائنریاں ابتدا میں بلکل کسی چائے کی کتیلی جیسی نظر آتی ہیں اور ان کی اکثریت چین کے دارالحکومت بیجنگ کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع ہیں۔‘تیل صاف کرنے والے یہ چھوٹے چھوٹے کارخانے چین کے لیے ان بڑے سرکاری کارخانوں کے مقابلے میں کم خطرات رکھتے ہیں جن کو عالمی سطح پر کام کرنا ہوتا ہے اور انھیں امریکی مالیاتی نظام تک رسائی بھی درکار ہوتی ہے۔ہمایوں نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ ’چھوٹے نجی کارخانے بین الاقوامی سطح پر کاروبار نہیں کرتے اور نہ ہی امریکی ڈالر میں تجارت کرتے ہیں۔ ان کو بین الاقوامی سرمایہ بھی درکار نہیں ہوتا۔‘
گمنام بیڑے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چھوٹے بینک
مایا بتاتی ہیں کہ ’چین اور ایران کی تجارت بین الاقوامی مالیاتی نظام کے ذریعے نہیں ہوتی جس پر مغربی دنیا کی نظر ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے چھوٹے چینی بینک استعمال ہوتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’چین کو پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل خریدنے سے جڑے خطرات کا بخوبی علم ہے اور اسی لیے چین اپنے بڑے اور اہم بینک اس لین دین میں ملوث نہیں کرنا چاہتا۔‘’چین چھوٹے بینکوں کو استعمال کرتا ہے جن کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘خیال کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام، جو امریکی کرنسی ڈالر میں لین دین کرتا ہے، سے دور رہنے کے لیے تمام خریدوفروخت چینی کرنسی میں کی جاتی ہے۔ہمایوں کہتے ہیں کہ ’تمام پیسہ چینی بینکوں میں جمع کرایا جاتا ہے جن کے ایرانی حکومت سے تعلقات ہیں اور اسی پیسے کو استعمال کرتے ہوئے ایران چین سے مصنوعات درآمد کرتا ہے اور یقینا کچھ پیسہ ایران چلا جاتا ہو گا۔‘’لیکن یہ معلوم کرنا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے اور کیا ایران تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والا تمام پیسہ لیتا ہے یا نہیں، بہت مشکل ہے۔‘ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں جن کے مطابق ایران مقامی کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس تجارتی لین دین کو مذید خفیہ رکھتا ہے۔
تیل کی قیمت میں اضافے کا خدشہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.