افغانستان میں طالبان: عالمی پابندیوں کی موجودگی میں افغانستان تک امداد کیسے پہنچے گی؟
- فرحت جاوید
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا 17واں غیر معمولی اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں ہوا، جس میں افغانستان میں امداد پہنچانے کے لیے ایسے راستے تجویز کیے گئے جو ملک کی عالمی پابندیوں میں جکڑی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنائے جا سکیں۔
اس کانفرنس کی میزبانی پاکستان نے کی جس میں افغانستان کی صورتحال پر غور کیا گیا اور عالمی برادری سے امداد اور تعاون سے متعلق اپیل کی گئی۔
اجلاس کا مقصد افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر بات چیت کرنا اور اس کی خوراک کی قلت کا شکار نصف سے زائد آبادی کی امداد کے لیے راستے کھولنے کا تعین کرنا تھا۔
واضح رہے کہ خود اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت افغانستان میں تین اعشاریہ دو ملین بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا جن ان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے زیرانتظام افغانستان میں امداد پہنچانے کے لیے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک ہیومینیٹرین ٹرسٹ فنڈ اور فوڈ سیکیورٹی پروگرام کا قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔
عالمی پابندیوں کے ہوتے ہوئے افغانستان تک امداد کیسے پہنچے گی؟
مگر اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عالمی پابندیوں کے ہوتے ہوئے یہ امداد افغانستان کو کیسے بھیجی جا سکتی ہے؟
او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے معاشی بحران کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو افغان طالبان سے علیحدہ کر کے دیکھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ پابندیاں افغانستان کے سکولوں، ہسپتالوں اور عوام تک پہنچنے والی امداد کے راستے میں حائل نہ ہوں۔
اجلاس سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں امداد کے لیے بعض مسلم ممالک مالی مدد کا اعلان کریں گے تاہم خود پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی بھی ملک نے امداد کا اعلان نہیں کیا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی عوام کی مدد کے لیے ایک ارب ریال یعنی 265 ملین ڈالر امداد فراہم کریں گے۔ پاکستان اس سے قبل تقریباً 30 ملین ڈالر امداد کا اعلان کر چکا ہے۔
افغانستان پر کیا پابندیاں عائد ہیں؟
کسی بھی ریاست یا افراد پر عالمی پابندیوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی اور اہم ترین قسم سلامتی کونسل کی جانب سے نافذ ہونے والی پابندی ہے۔ یہ پابندیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت نافذالعمل ہوتی ہیں۔
سلامتی کونسل کی پابندیاں عالمی سطح پر بین الاقوامی قانون کا درجہ رکھتی ہیں۔
پابندیوں کی دوسری قسم میں اقوام متحدہ کے علاوہ کسی اور ادارے اور مختلف کمپنیوں کا گروپ جیسا کہ یورپی یونین یا ایف اے ٹی ایف بھی کسی وجہ سے کسی دوسرے ملک پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
تیسری قسم میں وہ پابندیاں شامل ہیں جو کوئی ریاست یا ملک انفرادی سطح پر کسی ملک کے خلاف عائد کرتا ہے، انھیں یکطرفہ پابندیاں کہا جاتا ہے۔
انھی پابندیوں سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینٹر فار ایروسپیس اور سیکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر سید محمد علی نے کہا کہ یکطرفہ پابندیاں سیاسی پالیسی تو ہو سکتی ہیں مگر دیگر ممالک کے لیے قانون کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔
طالبان پر کس قسم کی پابندیاں عائد ہیں؟
افغانستان پر پابندیوں کا آغاز سنہ 1999 سے ہوا۔ اس سے قبل امریکی سفارتخانوں، دفاعی تنصیبات پر القاعدہ کے حملوں یا ایسی کوشش اور امریکہ میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث قرار پائے جانے کے بعد اس وقت سلامتی کونسل میں امریکہ کے نمائندے نے افغانستان میں طالبان حکومت سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکہ کو حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم اس وقت طالبان کے امیر ملا عمر نے یہ مطالبہ مسترد کیا جس کے بعد سلامتی کونسل نے القاعدہ اور ان کی معاونت کرنے پر طالبان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کے بعد افغانستان کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے تھے جبکہ ملک میں امدادی اداروں نے بھی اپنے پروگرام روک دیئے تھے۔
سنہ 2001 میں امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے افغانستان پر حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان پابندیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اب پابندیاں افراد اور گروپس کے خلاف عائد ہونا شروع ہوئیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج افغانستان کی عبوری حکومت میں موجود متعدد افراد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے طالبان پر 2001 کے بعد سخت پابندیاں عائد کی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔
امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سابق صدر باراک اوباما کے دور میں سب سے زیادہ، تقریباً 103 اقتصادی پابندیاں نافذ کی گئیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے تھے کے دور میں سب سے کم یعنی صرف 24 پابندیاں عائد تھیں۔
آج طالبان پر، حقانی نیٹ ورک اور ان سے منسلک افراد کے ساتھ کاروبار، انھیں اسلحے اور بارود کی فراہمی، انھیں یا ان سے جڑے کسی شخص، ادارے، تنظیم یا کسی بھی سرگرمی کے لیے کسی بھی قسم کی مالی مدد فراہم کرنے پر پابندی عائد ہے۔
ان پابندیوں کے مطابق کسی بھی ایسی سرگرمی کے لیے مالی، افرادی یا ایس کوئی بھی مدد کرنے کی ممانعت ہے جس کا براہ راست یا بالواسطہ فائدہ طالبان سے جڑے ان افراد کو ہو جن کے خلاف پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے علاوہ ان افراد پر سفری پابندیاں بھی عائد ہیں اور ان کے اثاثے منجمد ہیں۔
اقوام متحدہ کے علاوہ خود امریکہ نے بھی موجودہ طالبان اراکین اور حقانی نیٹ ورک اور اس کے اراکین پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دہشت گردی کے علاوہ دہشتگردوں کی معاونت، منشیات کی ٹریفکنگ، کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم سے منسلک پابندیاں بھی عائد ہیں۔
اس وقت افغانستان میں امداد کی فراہمی میں مشکلات کیا ہیں؟
رواں برس کابل میں حکومت گرانے اور اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ نے اپنے ملک میں موجود افغانستان کے تمام اثاثے، جن کی مالیت تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر ہے، منجمد کر دیے، جس کے بعد عالمی امداد پر چلنے والے ملک میں بینکنگ کا نظام مکمل طور پر ختم ہو گیا جبکہ خود افغانستان میں طالبان نے ڈالر کی بجائے افغان کرنسی استعمال کرنے کا حکم دیا۔
دوسری طرف طالبان حکومت سے جڑی پابندیوں، سیکورٹی خدشات کے پیش نظر امدادی اداروں نے بھی اپنی سرگرمیاں ختم کر دیں۔
اس کی بڑی وجہ وہ خدشات ہیں کہ عالمی پابندیوں کی صورت میں بھی فنڈز کی منتقلی یا انھیں طالبان کے زیرانتظام چلنے والے ملک میں بھیجنے کی صورت میں خود ان اداروں کو اپنے ملکوں میں سخت احتسابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی اور جنرل لائسنس کا اجرا
تاہم امریکہ نے ستمبر میں پہلی بار افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد بھی امدادی سامان مہیا کرنے کے لیے کم از کم دو جنرل لائسنسز کا اعلان کیا ہے، جن کے مطابق مختلف امریکی اور امریکہ میں قائم عالمی امدادی ادارے افغانستان میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔
تاہم اس ضمن میں شرائط واضح نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال مختلف ادارے ایسی کسی بھی مالی مدد سے گریزاں ہیں۔
بعض عالمی اداروں نے امریکی اعلان کے بعد افغانستان کے لیے مدد کے دروازے کھولے بھی ہیں۔ جیسا کہ عالمی بینک نے افغانستان کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ میں سے رقم افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان جنرل لائسنسز کے تحت کوئی بھی رقم طالبان سے منسلک افراد یا ان کی حکومت کے حوالے نہیں کی جائے گی نہ ہی اس رقم سے طالبان حکومت کے زیرانتظام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جائیں گی۔
یہ رقوم خوراک اور ادویات کے لیے استعمال ہوں گی۔
پاکستان میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس
پاکستان میں منعقد ہونے والا اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی افغانستان میں امدادی فنڈز پہنچانے کے لیے ایک ایسا ذریعہ تلاش کرنے کی کوشش ہے جس پر دنیا کے دیگر ممالک اور امدادی ادارے مطمئن ہوں۔
اجلاس میں اہم ترین فیصلہ یہی کیا گیا ہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک اکاؤنٹ افغانستان کی امداد کے لیے مختص کیا جائے، جہاں دیگر ممالک اور عالمی ادارے رقوم منتقل کریں، جنھیں افغانستان میں امدادی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم جانتے ہیں کچھ ایسے ممالک ہیں جو عطیات دینا چاہتے ہیں مگر انھیں ایک ایسے اکاؤنٹ کی ضرورت ہے، جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جو عطیات براہ راست نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسا میکنزم ہو جو وہ سہولت کے ساتھ استعمال کریں، اسی لیے ہم نے اسلامی ترقیاتی بینک کا راستہ اختیار کیا ہے۔’
اس بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سید محمد علی کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ افغانستان سے متعلق یہ پابندیاں چند افراد پر ہیں یا پوری ریاست پر؟ اور اگر وہ چند افراد پر ہیں تو کیا ان افراد کی حکومت میں موجودگی سے تمام افغان عوام متاثر ہو گی؟’
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی خراب صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہمسایہ ممالک ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کوشش کر رہے ہیں کہ پابندیاں نرم کی جائیں یا افغان عوام کے لیے امداد جلد از جلد یقینی بنائی جائے۔
‘انسانی بحران بدتر ہونے کی صورت میں یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمسایہ ممالک میں مہاجرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے یا وہاں سیکیورٹی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جو ان ممالک کو متاثر کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک نیوٹرل اور کثیرالجہتی پلیٹ فارم فراہم کیا جائے، جو افغان عوام کی مدد کر سکے، اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میں آپ کی پسند کی حکومت ہے یا نہیں ہے۔’
ان کے مطابق اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے ہیں جو اس وقت طالبان کی حکومت کے ساتھ رابطوں میں ہیں اور محدود سطح پر امدادی کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
‘مگر یہ تمام ادارے بڑی بین الاقوامی طاقتوں کے زیراثر بھی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسے متبادل پلیٹ فارمز تلاش کیے جا رہے ہیں، جو اس وقت افغان عوام تک مدد پہنچانے کے لیے سہولت کاری کر سکیں۔’
اس سوال پر کہ اسلامی ترقیاتی بینک ہی کیوں، سید محمد علی کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، ورلڈ فوڈ پروگرام، یا عالمی ادارہ برائے صحت اس معاملے پر کچھ کام کر رہے ہیں۔ متبادل راستوں میں او آئی سی کے علاوہ ایس سی او کا فورم بھی شامل ہے جبکہ ایشیائی بینک کا آپشن بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
فنڈنگ افغانستان پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟
اجلاس سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کئی اسلام ممالک افغانستان کے لیے امدادی پیکج یا عطیات کا اعلان کریں گے۔ تاہم سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ کسی ملک نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا کسی ملک نے کھل کر فنڈز کے لیے رقم کا اعلان کیا ہے یا نہیں، انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ درست ہے کہ ہم نے یہ فنڈ قائم کیا ہے مگر ہم ابھی افغان اتھارٹیز کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی افغان حکام سے رابطہ کیا جائے گا اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کی ضروریات کیا ہیں۔
’اُس وقت ہی عطیات ملنے کا آغاز ہو گا۔ ہمیں ابھی کوئی عطیات نہیں ملے، یہ افغان حکام سے براہ راست رابطے کے بعد ہی شروع ہوگا اور ہم اس کے لیے پرامید ہیں۔’
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رشید احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت تک پابندیاں ختم نہیں ہوتی ہیں تو افغانستان تک امداد نہیں پہنچانا ایک چیلنج ہی رہے گا۔
ان کے خیال میں اس حوالے سے سب سے اہم کردار سفارت کاری کا ہی ہے۔ ان کے مطابق او آئی سی براہ راست کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتی مگر وہ اقوام متحدہ کی توجہ اس طرف دلا سکتی ہے۔
سید محمد علی کہتے ہیں کہ اس بارے میں طریقہ کار طے کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔
ان کے مطابق ‘پہلے یہ فنڈ قائم ہو گا، اس سے متعلق قانون سازی کی جائے گی اور ایسے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں گے، جو رکن ممالک اور عالمی امدادی اداروں کے قوانین سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ یہ فنڈ کیسے لوگوں تک پہنچے گا، کیسے اور کس چینل کے ذریعے منتقل ہوگا، کس علاقے اور کس مد میں عوام تک پہنچایا جائے گا۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ یہ فنڈ افغانستان میں قائم حکومت کو دیا جائے۔ یہ طریقہ کار تمام ممالک کے اتفاق رائے سے ہی وضع کیا جائے گا۔’
‘طالبان کو بھی تبدیل ہونا ہو گا`
ڈاکٹر رشید احمد خان کے مطابق امداد تک جلد رسائی کا انحصار خود طالبان کے اپنے کنڈکٹ سے بھی وابستہ ہے کہ وہ کیسے عالمی برادری کو اپنے اقدامات سے متعلق مطمئن کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت کچھ وعدے کیے تھے، جن میں سے ایک خواتین کے حقوق سے متعلق تھا اور اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے وہ افغانستان کے مختلف حلقوں سے بات کریں گے۔ اور طالبان نے تیسرا وعدہ یہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں کسی دہشتگرد تنظیم کو پناہ نہیں دیں گے۔
ان کی رائے میں طالبان تینوں وعدوں پر ہی عمل نہیں کر سکے ہیں۔
ایسے شواہد آئے ہیں کہ طالبان نے سو سے زائد سرینڈر کرنے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو قتل کیا ہے، جو ان کے اپنے عام معافی کے اعلان کے برعکس ہے۔ جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو بچیوں کو پرائمری سکول تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر رشید کے مطابق او آئی سی کے اجلاس سے افغان طالبان کو بھی یہ ایک پیغام گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی لے کر آئیں۔
Comments are closed.