بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عالمی پابندیوں کی زد میں آنے والے روسی ارب پتی کون ہیں؟

روس، یوکرین تنازع: پابندیوں کے نشانے پر آنے والی روسی ارب پتی شخصیات کون ہیں؟

  • ڈینیئل سینفرڈ
  • بی بی سی نیوز

Vladimir Putin and Roman Abramovich

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کی جانب سے یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کے جواب میں برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ نے اُن ارب پتی کاروباری شخصیات پر خوفناک حد تک سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ صدر دلادیمیر پوتن کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔

صدر پوتن گذشتہ کئی برسوں سے اپنے اِن ساتھیوں کو خبردار کرتے رہے ہیں کہ وہ خود کو عالمی پابندیوں سے بچانے کی کوشش کریں، خاص طور پر تب سے جب کرائمیا پر روسی قبضے کے بعد روس کے ساتھ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔

مسٹر پوتن کے قریبی حلقے میں شامل کچھ ساتھیوں نے تو اُن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے روس میں ہی سرمایہ کاری کی، تاہم کچھ نے اپنی دولت بیرون ملک عالیشان جائیدادوں اور فٹ بال کلبوں کو خریدے میں لگائی۔ ان لوگوں کی منافع بخش کمپنیاں دوسرے ممالک کے بازارِ حصص (سٹاک مارکیٹ) کی فہرستوں میں بھی موجود رہیں۔

لیکن مغربی ممالک کی طرف سے دور جدید کی جامع ترین معاشی پابندیوں کے نفاذ کے بعد سے کئی دولت مند روسی کاروباری شخصیات اپنی دولت بچانے کے جتن کر رہی ہیں۔

روسی ارب پتی

امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی پابندیوں کے شکار

علیشیر عثمانوف امیر ترین روسیوں میں شامل ہیں اور فوبز میگزین کے مطابق وہ 17.6 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ وہ ماضی میں تلوار بازی کے کھلاڑی رہ چکے ہیں اور یورپی یونین کے مطابق علیشیر عثمانوف وہ ’سرکاری کاروباری شخصیت‘ ہیں جو صدر پوتن کی ان کے کاروباری مسائل کو سلجھانے میں مدد کرتے ہیں۔

علیشیر کی پیدائش ازبکستان کی ہے اور وہ ’یُو ایس ایم ہولڈنگ‘ کے نام سے ایک بہت بڑی کمپنی چلاتے ہیں جس میں کئی چھوٹی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ کمپنی معدنیات اور ٹیلی کام کے کاروبار کے علاوہ روس کی دوسری بڑی موبائل کمپنی ’میگافون‘ کی بھی مالک ہے۔

یورپی یونین نے مسٹر عثمانوف پر پابندیوں کا اعلان 28 فروری کو کیا تھا جس کے بعد برطانیہ اور امریکہ نے بھی ان پر پابندیاں لگا دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں نہ صرف غیرمنصفانہ ہیں بلکہ غلط بھی ہیں۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہReuters

لگتا ہے کہ یو ایس ایم ہولڈنگ کو امید ہے کہ چونکہ اس میں علیشیر عثمانوف کا حصہ 50 فیصد سے کم ہے، اس لیے کمپنی یورپی یونین کی پابندیوں سے بچ جائے گی۔ مسٹر عثمانوف کی جدید پرتعیش کشتی ’دلبر‘ جس کا نام انھوں نے اپنی والدہ کے نام پر رکھا تھا، وہ آج کل ہیمبرگ کے ساحل پر کھڑی ہے جہاں اس کی تزین و آرائش کا کام جاری ہے۔

انھیں خدشہ ہے کہ معاشی پابندیوں کے اعلان کے بعد ان کی اس انتہائی مہنگی ’یاٹ‘ کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ میں بظاہر ان کی سب سے بڑی سرمایہ کاری جائیداد کی شکل میں ہے۔ لندن میں وہ شہر کے مرکزی علاقے میں واقع پرتعیش ’بِیچ وُڈ ہاؤس‘ کے مالک ہیں جس کی مالیت 6 کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ ہے جبکہ لندن کے مضافاتی علاقے سرے میں واقع ٹیوڈر دور کا ’سٹن پیلس‘ بھی ان کی ملکیت ہے۔ یہ دونوں اثاثے برطانوی حکام نے منجمد کر دیے ہیں۔

علیشیر عثمانوف کے کاروباری ساتھی فرہاد موشیری فٹبال کلب ’ایورٹن‘ کے مالک ہیں جبکہ اس کلب کے بڑے بڑے سپانسرز میں عثمانوف کی کمپنیاں، یو ایس ایم، میگافون اور یوٹا شامل ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی سانجھی سرمایہ کاری اس سے بھی زیادہ ہے۔ ایورٹن نے گزشتہ ہفتے خود کو ان دونوں کے ساتھ معاہدوں سے الگ کر لیا اور مسٹر موشیری نے یو ایس ایم کے بورڈ سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

روسی ارب پتی

جن پر کسی نے پابندی نہیں لگائی

جن ارب پتی روسی کاروباری شخصیات پر کسی ملک نے ابھی تک پابندی نہیں لگائی ہے اُن میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرنے والے انگلینڈ کے فٹ بال کلب ’چیلسی‘ کے مالک رومان ابرامووچ بھی شامل ہیں۔ اُن پر پابندی نہ لگانے کی وجہ شاید یہی ہو کہ ان کا بظاہر اثر و رسوخ صدر پوتن کے باقی قریبی ساتھیوں سے کم ہے۔

روس کے صدارتی حلقے میں رومان ابرامووچ کا اثر و رسوخ کتنا ہے، اس پر مختلف لوگ اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ صدر پوتن محض انھیں برداشت کر لیتے ہیں، جبکہ دیگر سمجھتے ہیں کہ وہ مسٹر پوتن کے خاصے قریب ہیں۔

جہاں تک رومان ابرامووچ کا اپنا تعلق ہے، وہ مسٹر پوتن یا کریلمن کے ساتھ اپنی قربت سے بڑی شدومد کے ساتھ انکار کرتے ہیں، تاہم اگر مغربی ممالک کی پابندیوں کا دائرہ پھیلتا ہے تو مسٹر ابرامووچ کے 12.4 ارب کے اثاثوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

گذشتہ بدھ کو انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ چیلسی کو تین ارب ڈالر میں فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ لندن میں واقع ’کنسنگٹن پیلس گارڈن‘ کے نام سے مشہور جائیداد کو بھی 15 کروڑ پاؤنڈ کے عوض فروحت کرنے کو تیار ہیں۔

مسٹر ابرامووچ نے یہ دولت سنہ 1990 کے عشرے میں بنائی تھی اور ان کا شمار ان اصل اولیگارک میں ہوتا ہے جو سابق صدر بورس یلسٹن کے دور میں مشہور ہوئے تھے۔ ان کی سب سے بڑی کاروباری کامیابی یہ تھی کہ انھوں نے ’سِب نیفٹ‘ نامی تیل کی کمپنی کوڑیوں کے مول خرید لی تھی۔

ان کے موجودہ اثاثوں میں دنیا کی تیسری طویل ترین جدید یاٹ ’ایکلپس‘ بھی شامل ہے جو گذشتہ جمعے کو برٹش ورجن آئی لینڈز کے پانیوں میں تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک اور پرتعیش یاٹ ’سولارس ‘ کے بھی مالک ہیں جو آج کل بارسلونا کے ساحل پر لنگرانداز ہے۔

انھوں نے برطانیہ سے اپنی دولت حالیہ برسوں میں نکالنا شروع کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سنہ 2018 میں اپنے برطانیہ کے ویزے میں توسیع کی درخواست نہیں دی، بلکہ لندن آنے جانے کے لیے وہ آج کل اسرائیلی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں حاصل کیا ہے۔

ماضی میں مسٹر ابرامووچ لندن میں چیلسی کلب کا ہر میچ دیکھنے جاتے تھے، لیکن اب وہ شاذ و نادر ہی وہاں دکھائی دیتے ہیں۔

روسی ارب پتی

امریکی پابندیوں کے شکار

جب مسٹر پوتن نے اقتدار سنبھالا تھا تو اولگ دپریپاسکا کا شمار امیر ترین روسیوں میں ہوتا تھا اور ایک اندازے کے مطابق وہ 28 ارب ڈالر کے مالک تھے، لیکن اب کہا جاتا ہے کہ ان کی کل دولت محض تین ارب ڈالر رہ گئی ہے۔

شدید کاروباری دھکم پیل کے بعد جب وہ سنہ 1990 کے عشرے میں لوگوں کی نظروں میں آئے تو اولگ دپریپاسکا ایلومینیم کی صنعت کے بے تاج بادشاہ بن چکے تھے۔

امریکہ کا کہنا ہے وہ گذشتہ کئی برسوں سے منی لانڈرنگ، رشوت، بھتہ خوری اور فراڈ جیسے ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر یہ الزامات بھی ہیں کہ ان کے ’منظم روسی جرائم پیشہ گروہوں سے تعلقات بھی ہیں اور انھوں نے ایک بڑے بزنس مین کے قتل کا حکم بھی دیا تھا۔‘

دیریپاسکا ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

Oleg Deripaska (R) with Putin at the 2017 Asia-Pacific Economic Cooperation Summit

،تصویر کا ذریعہKremlin/EPA

،تصویر کا کیپشن

اولگ دپریپاسکا صدر پوتن کے ہمراہ

سنہ 2008 کے عالمی اقتصادی بحران میں جب انھیں شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو اولگ دپریپاسکا کو مسٹر پوتن کی ضرورت پڑ گئی۔ اولگ دپریپاسکا کو سنہ 2009 میں اس وقت شدید خفت اٹھانا پڑ گئی تھی جب صدر پوتن نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سرعام یہ الزام لگا دیا کہ دپریپاسکا نے ایک قیمتی قلم چرا لیا ہے۔

لیکن لگتا ہے اس کے بعد انھوں نے مسٹر پوتن سے تعلقات بحال کر لیے تھے۔ سنہ 2016 کے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات پر مبنی ’مُلر رپورٹ‘ میں مسٹر دپریپاسکا کو صدر کا قریبی ساتھی بتایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اولگ دیریپاسکا کے کاروباری اثاثوں میں ’این پلس گروپ‘ نامی بڑی کمپنی سرفہرست ہے جس کی بنیاد انھوں نے خود رکھی تھی۔ یہ کمپنی ماحول دوست توانائی اور دھاتیں بنانے کی صنعت میں ایک بڑا نام ہے اور لندن سٹاک ایکسچینچ میں کاروبار کرنے والی کپمنیوں میں شامل ہے، لیکن جب سنہ 2018 میں امریکہ نے اولگ دیریپاسکا پر پابندیاں لگائیں تو انھوں نے کمپنی میں اپنے حصص 50 فیصد سے کم کر دیے۔

اس وقت مسٹر دیریپاسکا کی بنیادی کمپنیوں میں سے ایک، بیسِک ایلیمنٹ، نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان پر لگائی جانے والی پابندیاں ’بے بنیاد، لغو اور مضحکہ خیز ہیں۔‘

برطانیہ میں موجود مسٹر دپریپاسکا کی دولت میں لندن کے مضافاتی علاقے ’وے برج‘ میں واقع وسیع و عریض جاگیر ’ہیمسٹون ہاؤس‘ سرفہرست ہے جسے وہ روسی نژاد مسٹر سکریپال اور ان کی بیٹی کو زہر دیے جانے کے واقعے کے بعد سے ایک کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ کے عوض فروخت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

اس واقعے کے بعد برطانیہ اور روس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ اولگ دپریپاسکا بھی جدید ترین سہولیات سے آراستہ ایک یاٹ کے مالک ہیں جو گذشتہ بدھ کو روسی افراد پر پابندیوں پر اعلان کے وقت مالدیپ کی سمندری حدود میں موجود تھی۔

دیگر روسی اولیگارکس کے برعکس، اولگ دپریپاسکا یوکرین میں جنگ کے بارے میں اپنے خیالات کا کُھل کے اظہار کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر انھوں نے امن کی اپیل بھی کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’جس قدر جلد ممکن ہو مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔‘

روسی ارب پتی

امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کا شکار

جب 28 فروری کو روسی ارب پتی افراد کے خلاف یورپی یونین نے پابندیوں کا اعلان کیا تو اس کا کہنا تھا کہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ ایگور سیچن کے روابط بہت پرانے اور گہرے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف مسٹر پوتن کے معتمد اور قریب ترین مشیروں میں شامل ہیں بلکہ وہ صدر کے ذاتی دوست بھی ہیں اور دونوں روزانہ آپس میں بات کرتے ہیں۔

کاوباری دنیا میں ایگور سیچن کی ترقی اپنے مخالفین کو بیدردی سے راستے سے ہٹانے اور ان کا ناطقہ بند کرنے سے ہی ممکن ہوئی۔

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

روسی میڈیا میں انھیں ’ڈارتھ واڈر‘ یا شیطانی باپ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سنہ 2008 میں ماسکو میں امریکی سفارت خانے سے لِیک ہو جانے والے ایک خفیہ مراسلے میں ایگورسیچن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ شخص ایک ایسا ’عجیب وغریب کردار ہے کہ اس کے بارے میں مذاق مشہور ہو چکا ہے کہ یہ حقیقت میں کوئی شخص ہے بھی یا نہیں، یا کریملن نے محض لوگوں میں خوف پھیلانے کے لیے یہ کردار گھڑ رکھا ہے۔‘

ایگورسیچن پر امریکہ نے 2014 میں پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں ’مکمل طور پر غیر منصفانہ اور غیرقانونی‘ ہیں۔ 24 فروری کو امریکہ نے ایگورسیچن پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

مسٹر سیچن اپنے کریئر کے دوران کبھی سیاست اور کبھی کاروباری دنیا میں رہے اور کئی مرتبہ وہ دو شعبوں میں بیک وقت اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ مثلاً جب مسٹر پوتن وزیر اعظم تھے تو ایگورسیچن نائب وزیر اعظم تھے، جبکہ آج کل وہ بہت بڑی آئل کمپنی ’روزنیفٹ‘ کے کرتا دھرتا ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی میں مسٹر سیچن اس وقت بھی مسٹر پوتن کے ساتھ سینٹ پیٹرزبرگ کے دفتر میں کام کرتے رہے اور اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خفیہ ایجنسی کے جی بی میں بھی کام کرتے رہے، حالانکہ انھوں نے کبھی بھی اس کا کھلے بندوں اعتراف نہیں کیا ہے۔

ایگورسیچن روس میں ہی رہتے ہیں لیکن وہاں کوئی نہیں جانتا کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے۔ تاہم فرانسیسی حکام نے ان کی یاٹ ’ایمرو ویرو‘ کو پکڑ لیا ہے۔ حکام کو اس یاٹ کے ساتھ ایگورسیچن کے تعلق کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا تھا جب ان کی اہلیہ اولگا سچینا نے ایمرو ویرو پر کھینچی گئی کچھ تصویریں سوشل میڈیا پر لگائی تھیں۔

اب ان دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔

اس یاٹ کے علاوہ اس بات کے شواہد کم ہیں کہ ایگورسیچن نے اپنی دولت بیرون ملک رکھی ہوئی ہے اور اس کا باآسانی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے مغربی ممالک کے لیے ایگورسیچن کے مزید اثاثوں کا کھوج لگانا اور اُن پر پابندی لگانا مشکل ہو گا۔

روسی ارب پتی

امریکی پابندیوں کے شکار

ولادیمیر پوتن کے پرانے دوستوں میں الیکسی مِلر بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بھی اپنا کریئر صدر پوتن سے وفاداری کی بنیاد پر بنایا ہے۔

وہ سنہ 1990 کے عشرے میں سینٹ پیٹرز برگ کے میئر کے دفتر میں مسٹر پوتن کے نائب تھے جب پوتن خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ تھے۔

Alexey Miller (R) with Putin at the Kremlin on 2 February

،تصویر کا ذریعہKremlin/EPA

،تصویر کا کیپشن

الیکسی مِلر صدر پوتن کے ہمراہ

ایگورسیچن سنہ 2001 سے روس کی قدرتی گیس کی نہایت طاقتور سرکاری کمپنی ’گیز پروم‘ چلا رہے ہیں لیکن اس عہدے پر ان کی تعیناتی عجیب تھی اور اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے اور محض اپنے پرانے باس کے احکامات بجا لاتے ہیں۔

سنہ 2009 میں ماسکو میں امریکہ کے سفیر نے گیزپروم کے بارے میں کہا تھا کہ سرکاری فیتے کا مارا ہوا ’بدعنوان ادارہ ہے جسے سیاسی مقاصد کے لیے‘ استعمال کیا جاتا ہے۔

سنہ 2014 میں جب روس نے کرائمیا پر تسلط قائم کیا تھا تو مسٹر مِلر پر پابندیاں نہیں لگائی گئی تھیں، لیکن جب سنہ 2019 میں ان کا نام بھی فہرست میں شامل کیا گیا تو انھوں نے اس پر فخر کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’جب مجھے پہلی مرتبہ فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تو مجھے بھی شک ہو گیا تھا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ لیکن اب آخرکار مجھے بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ اس کا مطلب ہے ہم بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں۔‘

لگتا ہے کہ روس سے باہر مسٹر سیچن کی دولت کا کھوج لگانا آسان نہیں اور اس حوالے سے کسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔

روسی ارب پتی

یورپی یونین کی پابندیوں کے شکار

پیوتر آون (تصویر میں بائیں) پر پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے یورپی یونین کا کہنا تھا وہ مسٹر پوتن کے سب سے قریبی اولیگارکس میں سے ایک ہیں، جبکہ میخائل فریڈمین مسٹر پوتن کے حلقے کے سرکردہ رکن ہیں۔ ان دونوں نے مل کر ایلفا بینک قائم کیا تھا جو روس کا سب سے بڑا نجی بینک ہے۔

مُلر رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسٹر پوتن سے مسٹر آون کی ملاقات ہر سال تقریباً چار مرتبہ ضرور ہوتی ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مسٹر پوتن ’ان ملاقاتوں میں جن تجاویز اور تنقید کا اظہار کرتے ہیں وہ اصل میں مسٹر پوتن کے احکامات ہوتے ہیں اور اگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا تو ایگورسیچن جانتے ہیں کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔‘

ان دونوں افراد کو سنہ 2016 میں مسٹر پوتن نے خبردار کر دیا تھا کہ مستقبل میں لگائی جانے والی پابندیوں سے اپنے اثاثوں کو محفوظ کر لو۔

گذشتہ ہفتے ان دونوں نے ’لیٹرون انویسٹمنٹ‘ گروپ نامی مالیاتی کمپنی کے لندن میں واقع صدر دفتر کے سامنے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ کمپنی ان دونوں نے دس برس پہلے قائم کی تھی، لیکن 28 فروری کو یورپی یونین نے اس کمپنی میں دونوں کے حصص منجمد کر دیے۔

مسٹر آون اس کمپنی کے علاوہ رائل اکیڈمی آف آرٹس کے ٹرسٹی بھی تھے اور وہ اس عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔

دونوں کا کہنا تھا کہ ’جن بے بنیاد اور جعلی بنیادوں پر ان پر پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ انھیں چیلنج کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کریں گے۔‘

ایک اندازے کے مطابق مسٹر فریڈمین کے اثاثوں کی مالیت 12 ارب ڈالر ہے۔ وہ لندن کے مشہور لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے قریب ایک عالیشان گھر میں رہتے ہیں اور ان کے پاس شمالی لندن میں واقع ایلتھون ہاؤس بھی ہے جو سنہ 2016 میں انھوں نے چھ کروڑ 50 لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔

جمعرات کو لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یوکرین کی جنگ ایک ’بہت بڑا المیہ‘ ہے، تاہم انھوں نے براہ راست کریملن پر کوئی تنقید نہیں کی کیونکہ ان کے بقول اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.