سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی چیمپئن تھیں، انسانی حقوق کیلئے کام کیا اور عدلیہ کیلئے اعلیٰ معیار چھوڑ کر گئیں۔
لندن میں عاصمہ جہانگیر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی ریاست میں کردار بہت اہم رہا۔ معاشرہ عاصمہ جہانگیر کی بات سنتا تھا، انہوں نے ثابت کیا کہ ظلم و جبر قابل شکست ہے، عدلیہ انسانی حقوق کو محفوظ بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
حزب التحریر کے لیڈر کی طرف سے جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف پوچھے گئے سوال پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام ہمیشہ آئین کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، انہیں جمہوریت اور آئینی بالادستی کی سمجھ بوجھ ہے۔
انھوں نے کہا ضروری ہے کہ عوام کی رائے اور خواہشات کا احترام کیا جائے۔ پاکستانی جمہوریت پر اعتراض کرنے والے بعض اوورسیز پاکستانی مغرب میں یہ اعتراض کیوں نہیں کرتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کہ فوجی آمریت کے ادوار میں پاکستان میں کرپشن کم ہوئی؟ انھوں نے کہا کہ ملک زمین سے نہیں بلکہ لوگوں سے بنتا ہے۔ کیا ہم نے آدھا ملک کرپشن کی وجہ سے گنوایا یا ایک جرنیل کی وجہ سے گنوایا، جسے اقتدار کا شوق تھا؟ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ایک جرنیل نے عوام کی خواہش کو قبول نہیں کیا اور ملک دو ٹکڑے ہوا۔
حسین حقانی میمو گیٹ کمیشن پر سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حسین حقانی کے خلاف فیصلہ آئین کے مطابق دیا۔ حسین حقانی کو بار بار کہا گیا پاکستان آئیں وہ نہیں آئے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے برعکس حسین حقانی کو تنخواہ پاکستان کی ریاست ادا کرتی تھی۔
فیض آباد دھرنا کے فیصلے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے گفتگو کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کے بجائے حضور ﷺ کے بتائے گئے امن کے راستے پر چلیں۔ حضورﷺ نے تنقید اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ نرم رویہ اپنایا۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا چیف جسٹس تھا تو یقینی بنایا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سنے جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ پوری کوشش کی کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ہو۔
سیمینار سے عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی سلیمہ جہانگیر اور دو پروفیسرز نے بھی خطاب کیا۔ سلیمہ جہانگیر نے کہا کہ میری والدہ نے بانی ایم کیو ایم، حسین حقانی اور نوازشریف کی میڈیا سنسرشپ پر آواز بلند کی۔
میری والدہ ان لوگوں کی حقوق کی بات کرتی تھیں جنہیں ریاست نے نشانہ بنایا۔
Comments are closed.