حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل عرصے تک کویڈ 19 میں مبتلا رہنے سے کچھ لوگوں کو ’پراسوپیگنوسیا‘ (prosopagnosia) کی شکایت ہوسکتی ہے جسے عام زبان میں ’فیس بلائنڈنیس‘ (face blindness) کہتے ہیں۔
پراسوپیگنوسیا کا شکار افراد کو لوگوں کے چہرے اور ان کے چہرے کے تاثرات پہچاننے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے مریض کسی کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ سامنے والے کو غصہ آ رہا ہے یا وہ پریشان ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈس آرڈرز اینڈ اسٹروک کے مطابق یہ اعصابی بیماری ہے جس میں مریض چہروں کو پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔
جرنل کورٹیکس میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کچھ افراد کو کورونا کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد چہروں کو پہچاننے میں مشکلات اور نیوی گیشن کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس تحقیق میں اینی نامی 28 سالہ خاتون پر توجہ مرکوز کی گئی جو مارچ 2020 میں کورونا کا شکار ہوئی۔ اس سے پہلے اینی کو چہروں کو پہچاننے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ تاہم، وائرس کا شکار ہونے کے 2 ماہ بعد، اس نے اپنے قریبی خاندان کے افراد کو بھی شناخت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
محققین کے مطابق اینی کا کہنا ہے کہ اسے ایک ریستوران میں پاس سے گزرنے والے شخص کو پہچاننے میں دشواری ہوئی تاہم جب اس کی آواز سننی تو معلوم ہوا کہ وہ شخص کوئی اور نہیں اس کے والد ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ اب وہ لوگوں کی شناخت کے لئے ان کی آوازوں پر انحصار کرتی ہیں۔
اس نے مزید بتایا کہ کورونا کا شکار ہونے کے بعد اب اسے راستے یاد رکھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ اب وہ گروسری کی خریداری کے لئے جائیں تو بھی راستہ یاد نہیں رہتا کہ گاڑی کہاں پارک کی تھی یا روزمرہ جانے والی جگہوں کے لئے بھی ہدایت کی ضرورت ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے طویل مدت تک کورونا کا شکار 54 افراد سے سروے کیا ہے ، جس کے مطابق اکثریت نے بصری شناخت اور نیویگیشن کی صلاحتوں کے حوالے سے مسائل کی شکایت کی ہے۔
خیال رہے کہ طویل عرصے تک کورونا کا شکار سے مراد ایسی حالت ہے جس میں وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے 12 ہفتوں کے بعد بھی مریض صحت یاب نہ ہوسکے۔
محققین کا کہنا ہے ان نتائج کو مزید ٹھوس ثابت کرنے کے لیے مزید سخت جانچ کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.