طنزیہ بیانات، مبہم دھمکیاں اور بات چیت کی پیشکش: امریکہ شمالی کوریا سے چاہتا کیا ہے؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, لارا بکر اور انتھونی زرچر
  • عہدہ, بنکاک اور واشنگٹن ڈی سی سے

دہائیوں تک مغربی دنیا، بالخصوص امریکہ، نے خود سے یہ سوال کیا ہے: شمالی کوریا جیسے مسئلے کا حل کیا ہے؟

ایک جانب جب روسی صدر پوتن اور کم جونگ ان کی پابندیوں کا سامنا کرتی ریاستیں دوستی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہیں، شاید اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے پاس اب نئے خیالات کی کمی ہے۔

روس اور شمالی کوریا کے درمیان اگر کوئی معاہدہ ہوا تو اس کی تفصیلات دستیاب نہیں لیکن ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ روس بیلسٹک میزائل یا جوہری آبدوز کی ٹیکنالوجی شمالی کوریا کو فراہم کر سکتا ہے۔

اب تک امریکہ نے صرف طنزیہ بیانات دیے ہیں – جیسا کہ پوتن اس حال میں پہنچ چکے ہیں کہ انھیں شمالی کوریا سے ’مدد کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے‘ اور ’جھولی پھیلا کر سفر کرنا پڑ رہا ہے‘ یا سنجیدہ لیکن غیر واضح نتائج کی دھمکی دی ہے۔

لیکن امریکی معاشی پٹاری میں اب شمالی کوریا کو ڈرانے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں۔ جیسے امریکی محکمہ خارجہ پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے مذاق کیا کہ ’شاید شمالی کوریا کے دارالحکومت میں کسی کونے کھدرے میں ایک یا دو دکانیں ایسی ہوں جن کو اب تک پابندیوں کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘

تو آخر امریکی صدر جو بائیڈن، جو چین کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف ہیں، شمالی کوریا کے سربراہ کو مذاکرات کی میز پر کیسے لا سکتے ہیں؟

’ہیلو۔۔۔ پیریئڈ‘

گزشتہ برس جب امریکی صدر جنوبی کوریا کا دورہ کر رہے تھے تو ان سے سوال ہوا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کو وہ کیا پیغام دینا چاہیں گے۔ جو بائیڈن نے جواب دیا: ’ہیلو۔ پیریئڈ‘ (یعنی بس اتنا ہی)۔

فرینک ام یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر جو بائیڈن مذاکرات چاہتے ہیں جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کہہ رہا ہے تو یہ اپنی نیت کے اظہار کا کافی مزاحیہ طریقہ ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک موقعے کو کھو دینے جیسا ہے۔ سات دہائیوں کے دوران دونوں اطراف نے غلط قدم اٹھائے اور مواقع کو ضائع کیا جس کی وجہ سے ہم آج اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

کم جونگ ان شاید دلچسپی لیتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ انھوں نے امریکہ کی جانب سے حال ہی میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت پر مذاکرات کی پیشکش کا جواب نہیں دیا لیکن انھوں نے اپنی بھرپور کوشش سے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑا خطرہ ہیں اور جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

2022 سے شمالی کوریا 100 سے زیادہ میزائل کے تجربے کر چکا ہے اور دو بار جاسوسی کرنے والا سیٹلائیٹ لانچ کرنے کی ناکام کوشش کر چکا ہے اور یہ سب کچھ سخت عالمی معاشی پابندیوں کے باوجود کیا گیا۔

فرینک کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں امریکہ نے شمالی کوریا کے عزم کا غلط اندازہ لگایا۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں بہت سے لوگوں نے شمالی کوریا کو تیسرے درجے کا سکیورٹی کا مسئلہ قرار دیا اور اسے وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہیے تھی۔ شاید اس لیے کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہر وقت معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا لگتا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق اسی وجہ سے امریکی ترجیحات میں شمالی کوریا کافی نیچے ہے۔

کرسٹوفر گرین کرائسس گروپ میں کوریا کے امور پر تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کا خطرہ شمالی کوریا کے خطرے پر سبقت لے جاتا ہے۔

’ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جہاں شمالی کوریا کو ماضی سے زیادہ روس اور چین پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کے پاس ایسا کیا ہے جس پر شمالی کوریا جواب دے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تخلیقی سفارتکاری ممکن ہے لیکن میرے خیال میں اب آگے بڑھنے کا کوئی راستی باقی نہیں بچا۔‘

آگ اور دوستی

2017 میں شمالی کوریا نے دعوی کیا کہ اس نے چھوٹے حجم کے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو میزائل میں فٹ ہو سکتا ہے۔ یہ شمالی کوریا کے جوہری ارادوں میں ایک بڑا قدم تھا۔

اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ایسی ’آگ‘ کی دھمکی دی ’جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔‘

کم جونگ ان نے پھر اعلان کیا کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں ’جن کا بٹن ان کی میز پر ہی موجود ہوتا ہے۔‘ یہ ایک جوابی دھمکی تھی۔

صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو مذاکرات کی پیشکش کی اور جون 2018 میں دونوں رہنماؤں نے پہلی بار سنگاپور میں ہاتھ ملائے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شاید اسے ہی تخلیقی سفارت کاری کہتے ہیں لیکن دونوں رہنما تین بار ملے۔ سنگاپور کے بعد ان کی ملاقات ہنوئی اور پھر کوریا کی سرحد پر ہوئی لیکن وہ مزاکرات کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔

اس کے باوجود ان ملاقاتوں نے امریکہ اور شمالی کوریا میں سفارتکاری کو بدل کر رکھ دیا۔ شمالی کوریا کو یہ امید بندھی کہ معاہدے کے لیے صرف آمنے سامنے بیٹھنا ہی کافی ہے۔ دوسری جانب کم جونگ ان کو اپنی عسکری قوت کی نمائش کے ایک ہی سال کے اندر سفارتی کامیابی مل گئی۔

سب سے اہم لمحہ 2019 میں ہنوئی سمٹ کے دوران آیا جب صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر شمالی کوریا کو پیشکش کی کہ پابندیوں میں کسی حد تک نرمی کی جا سکتی ہے اگر شمالی کوریا اپنے ایک جوہری مرکز کو ختم کرنے پر رضامند ہو جائے۔

صدر ٹرمپ کے مشیر جان بولٹن کے مطابق کم جونگ ان نے اس پیشکش کو نظر انداز کر دیا جس کے بعد ان کو خالی ہاتھ واپسی کا طویل سفر ٹرین پر کرنا پڑا۔

اسی سال کوریا کی سرحد پر ایک تیسری ملاقات ہوئی۔ یہ بھی ایک سفارتی تماشہ ضرور تھا لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جین لی شمالی کوریا کے امور پر مہارت رکھتے ہیں جنھوں نے شمالی کوریا کے دارالحکومت میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا پہلا دفتر کھولا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہنوئی مذاکرات کی ناکامی کے بعد میرے خیال میں کم جونگ ان زیادہ مضبوط پوزیشن میں نظر آنا چاہتے تھے اور وہ بڑے اور زیادہ خطرناک ہتھیار بنانا چاہتے تھے۔‘

’ان کو حیرانی تھی کہ 2018 اور 2019 میں ان کو جوہری اسلحہ امریکہ کو ڈیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ کورونا کی وبا کے تین سال انھوں نے جوہری اسلحہ بہتر بنانے پر کام کیا اور ان کو اب لگتا ہے کہ وہ پہلے سے بہتر پوزیشن میں آ چکے ہیں۔‘

’شاید وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ٹرمپ وائٹ ہاوس میں واپس آتے ہیں یا نہیں۔‘

بیجنگ کا کردار

صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے مذاکرات کے بعد سے چین امریکہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے ایشیا میں سفارت کاری کو تیز تر کیا جس میں چین سے بات چیت کا ازسر نو آغاز اور خطے میں اتحاد اور اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں شامل ہیں۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کوششوں کی وجہ سے شمالی کوریا کو بہت زیادہ نظرانداز کر دیا گیا۔ اس حد تک کہ کوئی سفارتی رابطہ باقی نہیں رہا۔

دوسری جانب چین، جو روس اور شمالی کوریا دونوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے، خطے میں استحکام کا خواہشمند ہے۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

اگر روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعاون بڑھتا ہے تو مشرقی ایشیا میں امریکہ اپنی عسکری قوت بڑھا سکتا ہے جو چین نہیں چاہے گا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے خود کو ایک عالمی امن پسند کے طور پر پیش کیا ہے اور انھوں نے یوکرین جنگ کا حل بھی پیش کیا ہے۔

وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ شمالی کوریا یا روس کی ایسی حمایت کرتے نظر آئیں جس کی وجہ سے جنگ کا دورانیہ مزید بڑھ جائے۔

لیکن ساتھ ہی چین ایشیا میں امریکی اثرورسوخ کو محدود کرنے کے لیے روس اور شمالی کوریا کے اتحاد کو استعمال کر سکتا ہے۔

کرسٹوفر گرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا، چین اور روس کے تعلق کے گرد ہوتی ہوئی رپورٹنگ میں ’نئی سرد جنگ‘ کا بیانیہ بنایا جا سکتا ہے لیکن وہ اسے ’سنجیدہ مسئلے کو سادہ انداز میں بیان کرنا‘ قرار دیتے ہیں۔

’مجھے شک ہے کہ کم جونگ ان چاہیں گے کہ ان کے تعلقات کو وسعت ملے اور وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چین اور روس کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے۔ امریکہ کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ