- مصنف, منصور ابوبکر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، کانو
- 5 منٹ قبل
نائیجریا کے شہر کانو کو ’طلاقوں کا دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن وہاں ایک جوڑا ایسا بھی ہے جسے شادی کی 50 ویں سالگرہ منانے اور طویل عرصے تک ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر سراہا جا رہا ہے۔محمود کبیر یوسف اور رابعاتو طاہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خوش و خرم زندگی کے راز سے پردہ اٹھایا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ شمالی شہر کانو میں اتنی شادیاں کیوں ناکام ہو جاتی ہیں۔محمود کبیر کا خیال ہے کہ ان کی لمبی شادی کی وجہ ان کی بیوی کی سخی طبیعت ہے۔جبکہ 76 سالہ خاتون نے بی بی سی ہوسا کو بتایا کہ ان کے شوہر ’بہت بے غرض انسان ہیں اور وہ بہت کچھ نظر انداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری شادی کامیاب ہوئی ہے۔‘
یہ بات کہتے ہوئے رابعاتو مسکراتی ہیں جن کی عمر قریب 70 سال ہے۔ اس جوڑے کے 13 بچے ہیں اور انھوں نے اپنے شوہر کی اس قابلیت کی تعریف کی کہ وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پُرسکون رہتے ہیں۔انھوں نے کہا ’وہ بہت صبر کرنے والے آدمی ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی ہماری کامیابی کی وجہ تھی۔‘جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ یہ سب واضح بھی تھا کیونکہ انٹرویو کے دوران دونوں ہنستے رہے اور ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔حسنہ محمود 39 سالہ طلاق یافتہ خاتون ہیں۔ انھوں نے پانچ شادیاں کی ہیں اور وہ اس جوڑے اور ان کے واضح اطمینان سے متاثر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’اپنی تمام شادیوں کے دوران میں نے شریک حیات کے ساتھ صرف چار سال گزارے ہیں لہٰذا انھیں اس سنگ میل کا جشن مناتے ہوئے دیکھنا خوش کن تھا۔‘چار بچوں کی ماں کا کہنا تھا کہ ’میرے سب شوہر شادی کے وقت بہت اچھے اور خیال کرنے والے تھے لیکن شادی کے بعد وہ بدل گئے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے بہت بُرا لگتا ہے جب لوگ کانو کو ’نائیجیریا میں طلاقوں کا دارالحکومت‘ کہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ چیزیں بدل جائیں گی۔‘سنہ 1990 کی دہائی میں طلاق کی شرح میں اضافے کے بعد کانو کو یہ خطاب ملا اور وہ اس ناپسندیدہ لیبل کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
نائیجیریا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں ہر ماہ سینکڑوں شادیاں ختم ہو جاتی ہیں جس کا دارالحکومت کانو ایک تجارتی مرکز ہے۔سنہ 2022 میں مقامی حکومت کے تعاون سے کی گئی بی بی سی کی تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ کانو ریاست میں 32 فیصد شادیاں صرف تین سے چھ ماہ تک چلتی ہیں۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ 20 سے 25 سال کی عمر کے کچھ لوگ تین شادیاں کر چکے ہیں۔علیحدگیوں کی یہ شرح تشویش کا باعث ہے خاص طور پر حسبہ کے لیے جو کانو ریاست کی مالی اعانت سے چلنے والی ایک اسلامی ایجنسی ہے اور اخلاقی امور سے نمٹتی ہے۔ یہ ریاست میں شریعت یا اسلامی قانون کو نافذ کرتی ہے۔اس کے پاس ایک پولیس یونٹ بھی ہے جو عوامی مقامات پر الگ تھلگ رہنے اور شراب پر پابندی جیسی چیزوں کو نافذ کرتا ہے۔حسبہ میں شادی شدہ جوڑوں کی مدد کے لیے ایک مشاورتی سروس بھی ہے۔ خواتین اکثر اس کے دفاتر کے باہر قطاروں میں کھڑی ہوتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ ان کے سابق شوہر ان کے بچوں کی دیکھ بھال میں مدد نہیں کر رہے ہیں۔کانو میں لوگ کم عمری میں شادی کرتے ہیں، اکثر 18 سال کی قانونی عمر سے بھی پہلے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں طلاق کا آسان طریقہ ایک عنصر ہوسکتا ہے کیونکہ شوہر اپنی بیویوں کو صرف یہ کہہ سکتے ہیں ’میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘ یا کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر شادی ختم کر سکتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا پر بھیجا جانے والا ایک پیغام بھی ان کی شادی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔امینو دوراوا طلاق کی بلند شرح کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حسبہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کردہ ایک حل یہ ہے کہ لوگوں کو دوسرا موقع فراہم کیا جائے اور انھیں شادی شدہ زندگی کے لیے بہتر طور پر تیار کیا جائے۔ایجنسی بڑے پیمانے پر شادیوں کا اہتمام کرتی ہے جسے ’اورین زواراوا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو بنیادی طور پر طلاق یافتہ افراد کے لیے ہوتی ہیں اور یہ بڑے پیمانے پررشتہ کروانے کا کام کرتی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.