live local date review thuy tien hotel ho chi minh asin video filipiono cupid living in pattaya normal girl height bonjour indonesia

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

طالبان کے ہاتھ جنگی طیارے، گاڑیاں تو لگ گئیں مگر کیا وہ انھیں استعمال کر سکتے ہیں؟

افغانستان میں طالبان کے پاس اب امریکی جنگی طیارے اور گاڑیاں تو آ گئیں، لیکن کیا وہ ان کا استعمال کر سکتے ہیں؟

  • وکاس پانڈے اور شاداب نظمی
  • بی بی سی، نئی دہلی

طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حال ہی میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ایک تازہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح طالبان جنگجو امریکی ہیلی کاپٹر بلیک ہاک کو مثالی چیز کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کو قندھار ایئرپورٹ پر اڑایا ہے۔

چار پروں والا یہ کثیر مقصدی طیارہ ٹیرمک پر صرف ادھر آنے جانے کے لیے نہیں بلکہ اس کی مشق نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب طالبان کوئی گنوار سپاہیوں کا گروہ نہیں جو ٹوٹے پھوٹے پک اپ ٹرکوں پر کلاشنکوف اور رائفلیں لے کر گھوم رہے ہوں۔

15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے سخت گیر اسلام پسند گروہ طالبان کے جنگجوؤں کو امریکی ساختہ ہتھیاروں اور گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کو دکھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ تو سوشل میڈیا پوسٹس میں مکمل جنگی وردیوں میں دیکھے گئے ہیں اور انھیں دنیا کی دیگر سپیشل فورسز سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ وہاں نہ تو کوئی خاص لمبی داڑھی، یا روایتی شلوار قمیض ہے اور کوئی زنگ آلود ہتھیار تو یقینی طور پر نہیں ہیں۔ وہ اس کا حصہ نظر آ رہے ہیں۔

انھوں نے یہ ہتھیار افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز ( ANDs) کے فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد حاصل کیے تھے جو کہ ایک کے بعد ایک شہر میں ہتھیار ڈال رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے طالبان واحد انتہا پسند گروہ بن گیا ہے جس کے پاس ايئرفورس ہے۔

طالبان کے پاس کتنے طیارے ہیں؟

امریکہ میں قائم سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان فضائیہ کے پاس جون کے آخر میں 167 طیارے تھے جن میں حملہ آور ہیلی کاپٹرز اور دوسرے جنگی طیارے شامل تھے۔

افغانستان، امریکی ہتھیار

لیکن یہ واضح نہیں کہ ان 167 طیاروں میں سے کتنے طالبان نے اپنے قبضے لیے۔ قندھار ایئرپورٹ کی سیٹلائٹ تصاویر جو کہ بی بی سی کو پلینٹ لیبز سے حاصل ہوئی ہے اس کے مطابق ٹیرمک پر افغان فوجی طیاروں کی ایک بڑی تعداد کھڑی نظر آتی ہے۔

دلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے فوجی ہوا بازی کے ماہر انگد سنگھ کے مطابق طالبان کے شہر پر قبضے کے چھ دن بعد کی ایک تصویر میں پانچ طیارے ایئرپورٹ پر کھڑے نظر آتے ہیں جن میں کم از کم دو ایم آئی-17، دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز اور ایک تیسرا ہیلی کاپٹر جسے یو ایچ-60 کہا جا سکتا ہے، شامل ہیں۔

اس کے برعکس 16 جولائی کو لی گئی ایک اور سیٹلائٹ تصویر میں وہاں 16 طیارے، بشمول نو بلیک ہاکس اور دو ایم آئی-17 ہیلی کاپٹر اور پانچ فکسڈ ونگ طیارے دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کچھ طیارے یا تو ملک سے باہر اڑا لے جائے گئے یا انھیں دوسرے ایئربیس پر منتقل کر دیا گیا۔

طالبان نے باقی نو افغان ایئربیس پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ جس میں ہرات، خوست، قندوز اور مزار شریف کے ایئر بیس شامل ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ انھوں نے وہاں کتنے طیاروں کو اپنے قبضے میں لیا کیونکہ ان ہوائی اڈوں کی سیٹلائٹ تصاویر دستیاب نہیں۔

افغانستان، امریکی ہتھیار

طالبان جنگجو اور مقامی میڈیا ان ہوائی اڈوں سے ضبط شدہ طیاروں اور بغیر پائلٹ کے ڈرون کی تصاویر شائع کر رہے ہیں۔ کچھ آزاد ویب سائٹس نے کچھ طیاروں کے جغرافیائی محل وقوع کا بھی پتا چلایا ہے۔

لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ طیارے باغی جنگجوؤں کے ہاتھوں میں آنے سے پہلے افغانستان سے اڑا لیے گئے تھے۔ دلی میں ہوابازی کے ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 16 اگست کو ازبکستان کے ترمیز ہوائی اڈے سے لی گئی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ وہاں دو درجن سے زائد ہیلی کاپٹرز نظر آئے تھے جن میں ایم آئي-17، ایم آئی-25، بلیک ہاکز اور کئی اے-29 اور سی-208 طیارے شامل ہیں۔

سکیورٹی تھنک ٹینک سی ایس آئی ایس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طیارے اور ہیلی کاپٹرز افغان فضائیہ کے ہونے کا امکان ہے۔

طالبان کو اور کون سی جنگی کٹ وراثت میں ملی ہیں؟

اگرچہ طالبان کی فضائی طاقت کے استعمال پر سوالات کیے جا سکتے ہیں لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں جدید ترین بندوقیں، رائفلیں اور گاڑیاں سنبھالنے کا تجربہ ہے اور افغانستان میں ان کی کافی تعداد ہے۔

سنہ 2003 اور 2016 کے درمیان امریکہ نے افغان فورسز کے لیے بھاری مقدار میں فوجی سازوسامان بھیجا جو ان کے ساتھ لڑائی میں شریک تھے۔ امریکی حکومت کی احتساب کی رپورٹ کے مطابق اس سامان میں مختلف ساخت کی تین لاکھ 58 ہزار 530 رائفلیں، 64 ہزار سے زیادہ مشین گن، 25،327 گرینیڈ لانچر اور 22،174 ہمویز (تمام اقسام کی سطوں پر چلنے والی گاڑیاں) شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان، امریکی ہتھیار

سنہ 2014 میں نیٹو افواج کے جنگی کردار کے خاتمے کے بعد افغان فوج کو ملک کی حفاظت کا کام سونپا گیا اور جب انھیں طالبان کا مقابلہ کرنے میں دقت کا سامنا ہوا تو امریکہ نے مزید سازوسامان فراہم کیا اور پرانے فوجی سازوسامان کو تبدیل کردیا۔

اس نے صرف سنہ 2017 میں تقریبا 20 ہزار ایم-16 رائفلیں فراہم کیں۔ سگار کے مطابق اس کے بعد کے برسوں میں اس نے 2017 اور 2021 کے درمیان افغان سکیورٹی فورسز کو کم از کم تین ہزار 598 ایم-4 رائفلیں اور 3،012 ہمویز گاڑیاں فراہم کیں۔

افغان فوج کے پاس موبائل سٹرائیک فورس گاڑیاں بھی تھیں جو شارٹ نوٹس پر استعمال کے لیے تھیں۔ یہ 4×4 ورک ہارسز گاڑیاں لوگوں یا سامان لے جانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

طالبان اپنے نئے ملنے والے اسلحہ کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟

یہ ان فوجی کٹ پر منحصر ہے۔

سی این اے کنسلٹنگ گروپ کے ڈائریکٹر اور افغانستان میں امریکی افواج کے سابق مشیر ڈاکٹر جوناتھن شروڈن کا کہنا ہے کہ طیاروں پر قبضہ کرنا شاید طالبان کے لیے آسان تھا لیکن ان کے لیے ان کا استعمال اور ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہو گا۔ ان کے پرزوں کو اکثر سروس کی اور بعض اوقات انھیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی فضائیہ اپنے تکنیکی ماہرین کی ٹیم پر انحصار کرتی ہے جو ہر طیارے کی فضائی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت پرواز کے لیے تیار ہو۔

افغانستان، امریکی ہتھیار

زیادہ تر طیاروں کی دیکھ بھال نجی امریکی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں تھی جنھوں نے اگست میں شہروں اور صوبوں پر طالبان کے حملے شروع ہونے سے پہلے ہی ملک سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں عالمی سیاست اور سکیورٹی کے پروفیسر اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے امریکی فضائیہ کی ایک تجربہ کار فوجی ماہر جوڈی وٹوری اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ طالبان کے پاس ان طیاروں کو چلانے کی مہارت کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس لیے ان طیاروں کا طالبان کی جانب سے فوری استعمال کا کوئی خطرہ نہیں۔‘

لیکن رینڈ کارپوریشن کے ایک محقق اور امریکی وزارت دفاع برائے پالیسی کے دفتر میں افغانستان امور کے سابق ڈائریکٹر جیسن کیمبل کہتے ہیں کہ طالبان سابق افغان پائلٹوں کو ان طیاروں کو اڑانے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے۔

’وہ انھیں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیں گے۔ اس طرح وہ ان میں سے کچھ طیاروں کو آسمان پر لے جانے کے قابل ہو سکتے ہیں لیکن ان کے طویل مدت تک جاری رہنے کے امکانات تاریک نظر آتے ہیں۔‘

اور ممکنہ طور پر طالبان روسی ساختہ ایم آئی-17 طیارے کو چلانے کے قابل ہوں گے کیونکہ اس ساخت کے طیارے کئی دہائیوں سے ملک میں موجود ہیں۔ باقیوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لیے وہ ہمدرد ممالک کی طرف امید کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔

افغانستان، امریکی ہتھیار

دیگر ہتھیاروں سے باغیوں کا ہم آہنگ ہونا بہت آسان ہو گا۔ یہاں تک کہ طالبان پیدل فوجی بھی زمینی سطح پر استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں جنھیں انھوں نے اپنے قبضے میں لیا۔ کئی برسوں کے دوران قبضہ کی جانے والی چوکیوں میں ہتھیار چھوڑ کر بھاگنے والے فوجیوں کے وجہ سے انھیں اس کا تجربہ ہے۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اس گروپ کو اس طرح کے جدید ہتھیاروں تک رسائی ایک ’بڑی ناکامی‘ ہے، جس کے اثرات افغانستان تک ہی محدود نہیں ہوں گے۔ اس بات کے خدشات ہیں کہ چھوٹے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں آنا شروع ہو سکتے ہیں اور دنیا بھر میں دیگر شورشوں کو ہوا دے سکتے ہیں۔

جوڈی وٹوری کا کہنا ہے کہ یہ فوری خطرہ نہیں لیکن آنے والے مہینوں میں اس کی سپلائی چین ظاہر ہو سکتی ہے۔ اسے روکنے کی ذمہ داری ہمسایہ ممالک جیسے پاکستان، چین اور روس پر ہو گی۔

جیسن کیمبل کا کہنا ہے کہ طالبان ایک ذمہ دار چہرے کو پیش کرنے کے خواہاں ہیں حالانکہ ان کے لیے دنیا بھر میں نظریاتی طور پر ان کے ہم خیال گروہوں کی حمایت نہ کرنا مشکل ہو گا۔

طالبان کے درمیان اتحاد ایک اور اہم عنصر ہے جو ان ہتھیاروں کے استعمال میں اہم کردار ادا کرے گا۔

جوڈی وٹوری کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ طالبان اتحاد کے اندر سے منحرف ہونے والے گروہ، ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کریں۔ لہذا بہت کچھ اس پر منحصر ہو گا کہ افغانستان پر قبضے کا ابتدائی جوش ختم ہونے کے بعد طالبان قیادت کس طرح گروپ کو ساتھ رکھتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.