chunby girl asian matrimonial sites uk famous thai ladyboys kills me makes me feel alive pen pals usa thuy tien hotel ho chi minh lazi siquijor philippines

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

طالبان قندھار پر قبضے کے بعد لوگر میں داخل، ‘افغانستان خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے‘

قندھار: غزنی اور ہرات کے بعد طالبان کا افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر پر بھی قبضہ

افغان طالبان

،تصویر کا ذریعہEPA

طالبان نے افغانستان میں جاری اپنی پیش قدمی کے دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ حالیہ لڑائی میں اسے مسلح جنگجوؤں کی بڑی فتح اور افغان حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے مقامی حکومت کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ ’گذشتہ رات فوج سے جھڑپوں کے بعد طالبان نے قندھار شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘ مگر اطلاعات کے مطابق قندھار ایئر پورٹ اب بھی افغان فوج کے پاس ہے۔

قندھار غزنی اور ہرات کے بعد طالبان کے قبضے میں جانے والا اہم ترین شہر ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ طالبان تحریک نے قندھار سے جنم لیا تھا اور یہ ان کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ یہ ملک کا معروف تجارتی مرکز بھی ہے۔

جمعرات کو متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کے قبضے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جن میں غزنی، قلعہ نو اور ہرات شامل ہیں۔

ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے سفارتی عملے کو واپس لانے کے لیے قریب تین ہزار فوجی بھیج رہا ہے جبکہ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر افغانستان میں 600 فوجی تعینات کرے گا جو اس کے شہریوں کی وطن واپسی میں معاونت کریں گے۔ کابل میں برطانوی سفارتخانے میں محدود عملہ کام کرے گا۔

طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی ’دفاعی تجزیہ کاروں کے لیے بھی حیران کن‘

ملک میں غیر ملکی افواج کے 20 سالہ آپریشن اور انخلا کے بعد اب طالبان نے تیزی سے کئی شہری علاقوں میں قبضہ کیا ہے جس پر عالمی سطح پر کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

طالبان نے شمالی افغانستان کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کا کنٹرول اب ملک کے ایک تہائی علاقائی دارالحکومتوں پر ہے۔

ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جنوبی شہر اور صوبہ ہلمند کا دارالحکومت لشکر گاہ بھی طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔

اس سے قبل جمعرات کو طالبان نے ہرات، غزنی اور قلعہ نو جیسے اہم شہروں پر اپنی عملداری قائم کی تھی۔

افغان طالبان

،تصویر کا ذریعہEPA

طالبان اب ملک کے بیشتر شمالی علاقے اور ایک تہائی صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کی نظر اب کابل پر ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں ایسے پناہ گزین بھی پہنچ رہے ہیں جن کے آبائی علاقوں پر طالبان کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔

بی بی سی میں جنوبی ایشیا کے ایڈیٹر انبراسن ایتھیراجن نے کہا ہے کہ ‘طالبان کی پیش قدمی کی رفتار نے بڑے فوجی تجزیہ کاروں کو بھی حیران کر دیا ہے۔

قندھار کیوں اہم ہے اور افغان حکومت کیا کر رہی ہے؟

طالبان تحریک نے قندھار شہر سے جنم لیا تھا اس لیے یہ مسلح جنگجوؤں کے لیے بڑی فتح ہے۔

انھوں نے شہر کے مرکز پر حملے سے قبل اس کے گرد و نواح کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ اور پھر مرکز پر حملہ کیا۔

بدھ کو طالبان نے یہاں کے مرکزی جیل پر حملہ کیا اور جمعرات کو ایسی تصاویر جاری کیں جن میں انھیں شہر کے اہم مقامات پر دیکھا جاسکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان فوج نے بظاہر اس جنوبی شہر سے باہر فوج کی ایک عمارت میں پناہ لے لی تھی۔

قندھار، افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حکمت عملی کے اعتبار سے قندھار اس لیے اہم ہے کہ یہاں بین الاقوامی ہوائی اڈہ (ایئر پورٹ) ہے۔ یہاں زرعی اور صنعتی پیداوار ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے بڑا تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

قندھار میں انڈیا، پاکستان اور دیگر ممالک کے قونصل خانے بھی ہیں۔

اس سے قبل غزنی میں بھی ان دعوؤں کے مطابق طالبان کو فتح ہوئی ہے جو کابل-قندھار موٹر وے پر واقع ہے۔ اس سے کابل کے جنوب میں شہروں پر طالبان نے اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دوسری طرف ہرات شاہراہِ ریشم کا ایک قدیم شہر ہے جہاں کئی ہفتوں تک افغان فوج اور طالبان میں لڑائی جاری رہی اور آخر میں فوجیوں کو واپس لوٹنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنگجو سڑکوں پر ہتھیار لیے گھوم رہے ہیں اور پولیس کے صدر دفتر پر طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے۔

ہرات کے ایک شہری معصوم جان نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ‘گذشتہ رات نے سب بدل دیا ہے۔ وہ (طالبان) شہر میں داخل ہوئے اور انھوں نے ہر کونے پر اپنے پرچم لہرا دیے۔’

کابل میں امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ اسے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ طالبان ہتھیار ڈالنے والے افغان فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہیں جو کہ ‘بہت پریشان کن ہے اور جنگی جرائم کا سبب بنتا ہے۔’

اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ ایک ماہ سے افغانستان میں ایک ہزار سے زیادہ شہریوں کی موت اس لڑائی کی وجہ سے ہو چکی ہے۔

ہزاروں افراد شمالی صوبے سے بے گھر ہوچکے ہیں اور کابل پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق گذشتہ دنوں کابل آنے والے بچوں کی اندازاً تعداد 72 ہزار تھی۔ یہ بچے اب سڑکوں پر سو رہے ہیں۔ جبکہ کابل کے باہر عارضی کیمپوں میں کچھ خاندانوں کو پناہ دی گئی ہے۔

جرمن حکومت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبان افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو وہ ملک کے لیے 500 ملین ڈالر کی سالانہ مالی امداد روک دیں گے۔

افغان صدر اشرف غنی منتشر سابقہ جنگجوؤں کو طالبان کے خلاف متحد کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

بدھ کو انھوں نے مزار شریف کے دورے میں حکومت کی حمایت میں گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ شہر روایتی طور پر طالبان مخالف سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے شہر کے تحفظ کے لیے ان مسلح گروہوں کے سربراہان سے بات چیت کی۔

کئی برسوں تک اشرف غنی نے حکومت کی حمایت کرنے والے جنگجوؤں کو نظر انداز کیا تاکہ افغان فوج کی اہمیت بڑھ سکے مگر اب انھیں دوبارہ ان کی ضرورت پڑی ہے تاکہ طالبان کا مقابلہ کیا جاسکے۔

رواں ہفتے کے اوائل میں صدر غنی نے حکومت کے حامی ملیشیا کو ہتھیار دینے کی منظوری دی تھی۔

افغان طالبان

،تصویر کا ذریعہEPA

اس سے پہلے افغانستان کے وزیر داخلہ جنرل عبدالستار مرزاکوال نے طالبان کو پیچھے دھکیلنے کے حکومتی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ملک کے بڑے حصوں کو طالبان کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے تین مراحل پر مشتمل حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت مقامی ‘رضاکار مزاحمت کاروں’ کو مسلح کیا جا رہا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ افغانستان کی افواج بڑی شاہراہوں، شہروں اور سرحدی گزرگاہوں کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرانے پر توجہ دے رہی ہیں۔

امریکی اور برطانوی شہریوں کو نکالنے کا منصوبہ

برطانوی دفترِ خارجہ نے افغانستان میں موجود تمام شہریوں پر زور دیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ اندازاً چار ہزار برطانوی شہری اب بھی افغانستان میں مقیم ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سفارت خانہ کھلا رہے گا تاہم ‘ہم کابل میں بدلتی ہوئی سکیورٹی صورتحال کے باعث وہاں موجود سویلینز کی تعداد میں کمی کر رہے ہیں۔’

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں 3000 امریکی فوجی کابل بھیجے جائیں گے، تاہم پینٹاگون نے زور دیا کہ یہ فوجی طالبان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.