افغانستان: کیا طالبان دور حکومت کے مقابلے اب ملک میں حالات بہتر ہیں؟
- ریئلٹی چیک
- بی بی سی نیوز
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی افواج 11 ستمبر کو افغانستان چھوڑ دیں گی۔ اس دوران ملک میں امریکی مداخلت اور اس کے ہاتھوں طالبان حکومت کے خاتمے کو تقریباً 20 سال ہو جائیں گے۔
برطانیہ کے چیف آف ڈیفینس سٹاف جنرل نک کارٹر نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ اس عرصے میں ‘افغانستان زبردست ارتقا سے گزرا ہے۔’ وہ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر خواتین کی زندگی، تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
ہم نے دستیاب ڈیٹا کی بنا پر یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ اب ان میں سے کچھ شعبوں میں کیا بہتری آئی ہے۔
افغانستان اب کتنا پُرتشدد ہے؟
امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے اور غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلنے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کے باوجود حالیہ برسوں میں افغانستان بھر میں پُرتشدد واقعات جاری رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں اقوامِ متحدہ کے مطابق عام شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی اور اس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
ان میں سے زیادہ تر ہلاکتوں کی وجہ طالبان جیسے جنگجو گروہوں کو قرار دیا گیا۔
سنہ 2020 میں تین ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے تھے۔ یہ لگاتار ساتواں سال تھا جب ہلاکتوں کی تعداد اس سطح پر رہی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق گذشتہ سال ٹارگٹ کلنگز بھی بڑی تعداد میں واقع ہوئیں جن میں خاص طور پر سول سوسائٹی، میڈیا، عدلیہ اور سول انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہدف بنایا گیا۔
سنہ 2019 میں بی بی سی نے اگست کے مہینے میں تشدد پر نظر رکھی تھی اور پایا تھا کہ اوسطاً ہر روز 74 مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے پچھلے سال افغانستان میں تنازعے کے آغاز سے اب تک ہلاکتوں کی سب سے بڑی سالانہ تعداد ریکارڈ کی گئی جب 3800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور 7180 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
خواتین کی صورتحال
نوّے کی دہائی میں طالبان کے دورِ حکومت میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی تھی اور ان کے تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔
یہ سنہ 2001 میں تبدیل ہوا اور اب افغانستان کے قومی شماریاتی ادارے کے مطابق بھلے ہی حکومتی محکموں اور بڑے عوامی اداروں میں اکثریتی طور پر مرد ہی کام کرتے ہیں، مگر گذشتہ دو دہائیوں میں خواتین کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سنہ 2004 میں ان شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 51 ہزار 200 سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ سنہ 2018 تک یہ تعداد تقریباً 87 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اس سے آگے کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
اس عرصے میں مرد اہلکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا مگر خواتین کی تعداد میں اضافے کی شرح زیادہ رہی (خواتین کی 69 فیصد بمقابلہ مردوں کی 41 فیصد)۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ خواتین کس سطح پر کام کر رہی ہیں یا مرد ملازمین کے مقابلے میں اُن کی تنخواہیں کتنی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری ملازمین کے بارے میں ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
صنفی مساوات پر ایک حالیہ امریکی سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ اب عوامی عہدوں پر خواتین کی ‘بے نظیر’ تعداد موجود ہے اور قومی پارلیمان سمیت صوبائی اور ضلعی کونسلوں میں کم سے کم خواتین کی تعداد کا کوٹہ بھی مختص کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس رپورٹ میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافے کی بھی نشاندہی کی گئی جو اس کے مطابق 2005 میں 180 سے بڑھ کر 2019 میں 3560 ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین ججوں کی تعداد بھی 2007 میں 5 فیصد سے بڑھ کر 2018 میں 13 فیصد ہو چکی ہے۔
خواتین کی تعلیم
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں تمام سطحوں پر سکولوں میں بچوں کی تعداد نو لاکھ تھی جو 2017 میں بڑھ کر 92 لاکھ ہوگئی تھی۔ ان میں سے 39 فیصد لڑکیاں ہیں۔
جب آپ پرائمری تعلیم کی بات کریں تو اقوامِ متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق 2012 تک زیرِ تعلیم لڑکیوں کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہو چکی تھی مگر تب سے اب تک اس میں کچھ کمی ہوئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے 2019 کی ایک رپورٹ میں کہا کہ ‘افغانستان میں ہر عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے مگر صنفی امتیاز 10 سال کی عمر سے بڑھنا شروع ہوتا ہے اور 14 کی عمر تک عروج پر جا پہنچتا ہے۔’
یونیسیف کے مطابق سکول نہ جانے والے 37 لاکھ بچوں میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔
ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بڑے حصوں بالخصوص طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں کے زیرِ انتظام علاقوں میں لڑکیوں کے سکول میں داخلوں کی شرح بہت کم ہے۔
افغانستان کے نیشنل ایجوکیشن سٹریٹجک پلان (2017-2021) میں اعتراف کیا گیا ہے کہ تعلیم تک رسائی میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے لڑکیوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔
تعلیمی شعبے میں اب پہلے سے زیادہ خواتین کام کر رہی ہیں۔ سنہ 2018 تک افغانستان کی ایک تہائی اساتذہ خواتین تھیں اور خواتین میں شرحِ خواندگی بڑھی ہے۔
اور 2002 سے 2018 تک کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق سرکاری یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد میں تقریباً سات گنا اضافہ ہوا ہے جو اسی عرصے میں طلبہ کی تعداد میں اضافے سے زیادہ ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا اہم ہے کہ افغانستان میں تعمیرِ نو کے کام پر نظر رکھنے والے امریکی حکام نے سرکاری ڈیٹا میں متعدد مسائل کی جانب اشارہ کیا ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ داخلوں کی شرح کو کئی وجوہات کی خاطر بڑھا کر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
غربت کی صورتحال
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ہے مگر سنہ 2001 میں امریکی مداخلت کے بعد جب بین الاقوامی امداد کے بعد اقتصادی ترقی بھی تیزی سے ہوئی۔
یہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے اعداد و شمار میں دیکھا جا سکتا ہے جو عالمی بینک کے مطابق 2003 سے 2012 کے درمیان 9.4 فیصد کی اوسط پر رہے۔
مگر امداد میں کمی کی وجہ سے شرحِ نمو بھی سست ہوئی ہے اور سکیورٹی صورتحال بھی خراب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2015 کے بعد سے بڑی تعداد میں افغان لوگ وطن واپس آئے ہیں جس کی وجہ سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 2016-2017 میں حالاتِ زندگی کے بارے میں ایک حکومتی سروے میں پایا گیا کہ 54 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ افغانستان میں یہ لکیر 2064 افغانی فی شخص ماہانہ پر مقرر ہے جو کہ یکم جنوری 2017 تک 31 ڈالر یا 25 پاؤنڈ کے برابر بنتی ہے۔
یہ تعداد 2011 اور 2012 کے درمیان 38 فیصد تھی۔
گیلپ کی جانب سے اگست 2019 میں ایک اور سروے میں حالیہ کچھ سالوں میں سخت خشک سالی کی جانب نشاندہی کی گئی جس سے غذائی تحفظ متاثر ہوا ہے۔
سروے میں پایا گیا کہ ہر 10 میں سے چھ افغان شہریوں نے کہا کہ گذشتہ سال میں اُنھوں نے متعدد مواقع پر غذا کے حصول میں مشکلات کا سامنا کیا۔
کورونا وائرس کی وبا کے اثر سے صورتحال ممکنہ طور پر مزید خراب ہوئی ہوگی کیونکہ افغانستان کا طبی اور سماجی انفراسٹرکچر نسبتاً کمزور ہے۔
Comments are closed.